Maktaba Wahhabi

1067 - 1201
نے خالد بن ولید کے ذریعہ سے علی علیہ السلام کو قتل کروانے کی سازش تیار کی مگر اس میں ناکامی ہوئی۔[1] بلاشبہ اس طرح کی روایات، کوڑھ زدہ و بدمزاج افکار و نظریات کے تانے بانے ہیں، جن کا مقصد صحابہ کرام کو تحریف قرآن کے ساتھ متہم کرنا اور یہ ثابت کرنا ہے کہ انھوں نے (علی رضی اللہ عنہ ) کو امامت سے محروم کرنے کے لیے یہ ساری سازشیں تیار کی تھیں۔ جب کہ یہ کم سمجھ لوگ ایک طرف آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور دوسری طرف ساتھ ہی ساتھ آپ کی مذمت بھی کر رہے ہیں، بایں طور کہ جب صحابہ نے آپ کے قرآن کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو گویا آپ نے اس غلط اتفاق پر خاموشی اختیار کرلی، جو کہ ایک بے جا بات ہے۔ پس غور کا مقام ہے کہ بھلا آپ کی شخصیت جو کہ اسلام کی طرف سے دفاع کرنے میں نہایت بہادر ثابت ہوئی تھی اس نے اس غلط اتفاق پر خاموشی کیسے اختیار کرلی؟ اس طرح کے بکواسات اور افسانہ طرازیوں کی تردید علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ نے فرمایا: مصحف (قرآن) کا سب سے بڑا اجر پانے والے ابوبکر ہیں، اللہ کی رحمت نازل ہو ابوبکر پر، انھوں نے سب سے پہلے دو دفتیوں (گتوں) کے درمیان اسے جمع کیا۔[2] کلینی نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ قرآن میں تحریف سے تعلق سے ان جھوٹے خیالات اور افترا پردازیوں کو جعفر صادق کی طرف منسوب کیا ہے، چنانچہ ان کی طرف نسبت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ قرآن جو جبریل علیہ السلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر لے کر نازل ہوئے تھے اس کی سترہ (17) ہزار آیات تھیں[3] جب کہ موجودہ قرآن مجید کی آیات کی تعداد صرف چھ ہزار دو سو چھتیس (6236) ہے اور بقیہ آیات آل بیت کے پاس محفوظ ہیں۔[4] کلینی کا یہ بھی خیال ہے کہ امام صادق نے علی رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ قرآن کے بارے میں فرمایا: ’’وہ ایک مصحف ہے، جس میں تمھارے اس قرآن کے مثل تین گنا ہے۔ اللہ کی قسم! اس میں تمھارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں۔‘‘[5] شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچھتّر (75) دنوں تک فاطمہ رضی اللہ عنہا رنج و الم سے نڈھال رہیں، آپ پر حزن و ملال کا ایسا پہاڑ ٹوٹا تھا جس کے کرب کو صرف اللہ ہی جانتا ہے، تب اللہ تعالیٰ نے آپ کے پاس جبریل علیہ السلام کو بھیجا، انھوں نے آپ کو تسلی دلائی، تعزیت کی اور ان کے والد محترم کے بارے میں ان سے گفتگو کی اور بتایا کہ ان کی آل و اولاد کے ساتھ بعد میں کیا کچھ پیش آئے گا۔ علی رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ سن رہے تھے اور جو کچھ سنتے اسے لکھتے رہتے، یہاں تک کہ وہ (جبریل علیہ السلام ) آپ کے پاس ایک مصحف لائے، جس میں اس قرآن کے تین گنا ہے، اس میں کسی حلال و حرام کا بیان نہیں، بلکہ اس میں ان چیزوں کا علم تھا جو مستقبل میں
Flag Counter