Maktaba Wahhabi

1058 - 1201
ہے اور شیعہ حضرات کا یہ کہنا کہ کلام الٰہی مخلوق ہے جسے اللہ نے دوسری مخلوق میں پیدا کیا ہے، یہ بھی غلط ہے، سلف نے اس کی تردید کی ہے، اس سلسلہ میں ان کے متواتر آثار اور متعدد تصنیفات موجود ہیں۔[1] اسی طرح ان کے علامہ وامام ’’البروجردی‘‘ نے اپنی کتاب ’’تفسیر الصراط المستقیم‘‘ میں ابن بابویہ کی ایک عبارت نقل کی ہے جس میں یہ اور اس کے استاد القمی ’’کلام الٰہی‘‘ کے غیر مخلوق ہونے والی عبارت کو ’’تقیہ‘‘ پر محمول کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: ’’شاید قرآن کے لیے کلمہ ’’خلق‘‘ کے استعمال کی ممانعت تقیہ کے پیش نظر ہوئی تاکہ عوام کا ساتھ دیا جاسکے، یا اس وجہ سے کہ یہ کلمہ ایک ایسے دوسرے معنی کا احتمال اور وہم پیدا کررہا تھا جسے کفار نے جھوٹ اور گھڑنے کے معنی میں استعمال کیا، چنانچہ اللہ نے ان کی باتوں کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: اِنْ ہٰذَا إِلَّا اخْتِلَاق ۔‘‘ مختصر یہ کہ ان بزرگان شیعہ کو ’’تقیہ‘‘ یا اس کے ہم معنی کسی دوسرے کلمہ کے علاوہ کہیں اور روپوش ہونے کی جگہ نہ مل سکی۔ پس شیعہ حضرات کا یہ منہج ثابت کرتا ہے کہ وہ کسی دلیل پر قائم نہیں ہیں، ہر نص اور عبارت میں ’’تقیہ‘‘ کے احتمال نے ان کا مکمل دینی ڈھانچہ بگاڑ دیا اورمذہب کی حقیقت کو ضائع کردیا۔ اس طرح ان کامذہب مجلسی، کلینی یا ابن بابویہ القمی کا مذہب ٹھہرا، نہ کہ ان کے ائمہ کی روایات۔[2] پھر سازش سے بھرپور اسی راستہ سے علم اور حق کا زیاں ہوا اور شیطانی اوہام پر مشتمل انھیں اسلوب فکر و تحریر کے نتیجہ میں امت اختلافات اور فرقہ واریت مسلط ہوگئی۔ کاش کہ مذہب تشیع کا کوئی خیرخواہ اس مذہب کے تئیں بھلائی اور احسان کا مظاہرہ کرتا تو پوری شیعیت کو اہل سنت و جماعت کا راستہ دکھاتا اور کتاب اللہ، سنت رسول، منہج صحابہ اور علمائے اہل سنت و جماعت کے عقائد سے اتفاق کرنے والی شیعی روایات سے استدلال کرکے قمی، کلینی اور مجلسی جیسے لوگوں کی چالبازیوں اور مکر سے تمام شیعہ برادران کو نجات دلاتا اور خاص طور سے وہ شخص یہ خیرخواہی اس لیے کرتا کہ ان کے ائمہ کو ہمیشہ اپنوں سے جھوٹ کی شکایت رہی اور وہ یہاں تک کہہ گئے کہ لوگوں نے ہمارے خلاف جھوٹ کا طومار باندھ دیا۔[3] اگر آپ ہمارے اس نظریہ کی تصدیق چاہتے ہیں کہ اہل سنت کی روایات اس مسئلہ میں اہل بیت سے متعلق شیعی روایات سے متفق ہیں، تو آپ دیکھیں گے کہ شیعی کتب مصادر و مراجع میں یہ بات کہ ’’اللہ کا کلام منزل ہے مخلوق نہیں ہے‘‘، اسی طرح موجود ہے جس طرح اہل سنت کی کتب مصادر و مراجع میں موجود ہے۔، انھیں پڑھنے کے لیے آپ امام بخاری کی کتاب ’’افعال العباد‘‘[4]ابن ابی حاتم[5] اور ابوسعید الدارمی کی کتب اور علامہ
Flag Counter