Maktaba Wahhabi

1059 - 1201
آجری کی ’’الشریعۃ‘‘[1]بیہقی کی ’’الاعتقاد‘‘[2]اور ’’الأسماء و الصفات‘‘[3]الکلائی کی ’’شرح اصول اعتقاد أہل السنۃ‘‘[4]اور ابوپاؤں کی ’’مسائل الامام أحمد‘‘[5]کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ شیعہ حضرات کے امام جعفر الصادق سے مروی ہے کہ ان سے قرآن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: نہ وہ خالق ہے اور نہ مخلوق۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ جعفر سے اس طرح بہت ساری روایات ہیں۔[6]تو یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو معنی اور مفہوم متفق علیہ ہے اسے کیوں نہ اختیار کرلیا جائے اور اس باطل کو کیوں نہ چھوڑ دیا جائے جو امت میں اختلافات اور فرقہ واریت پیدا کرنے والے علماء و مشائخ کے اقوال پر قائم ہے۔ ایسے فسادی علمائے شذوذ اور اپنی انفرادیت کو کھوج کھوج کر نکالتے ہیں تاکہ ’’خمس‘‘ کے نام پر بڑی بڑی رقمیں اینٹھ سکیں، معاشرہ میں ان کا رعب و دبدبہ رہے اور امام غائب کی نیابت کے حوالہ سے انھیں مقدس و محترم مقام حاصل رہے۔ اسی لیے وہ لوگ ہمیشہ یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ جو شیعہ نادان عوام کی مخالفت کرتا رہے وہ ہدایت پر ہے۔[7] واضح رہے کہ ان کے نزدیک نادان عوام سے مراد اہل سنت و جماعت ہیں، شیعی کتب میں وارد شدہ روایات اور جن میں تنصیص و تصریح ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے منزل ہے مخلوق نہیں ہے، ان متقدمین شیعہ کے عقیدہ کی نمائندہ ہیں جو اسی پر قائم تھے، جیسا کہ اہل علم نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔[8] اس لیے کہ ’’خلق قرآن‘‘ کا عقیدہ متاخرین شیعہ کی بدعت ہے۔[9] اسی طرح قرآن کے منزل من اللہ اور غیر مخلوق ہونے کا عقیدہ اہل بیت کا بھی رہا ہے، اہل بیت کے علی بن حسین ہوں، ابوجعفر الباقر ہوں یا ان کے بیٹے جعفر بن محمد ہوں، ان میں کسی بھی امام کے بارے میں یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ خلقِ قرآن کا قائل رہا، لیکن امامیہ ہیں کہ اپنے عام اصول و قواعد میں بھی اہل بیت کی مخالفت کرجاتے ہیں۔[10]تو ان سب چیزوں کے بعد بھی کیا ان کے مذہب کی خرابی کے لیے یہ بات نہیں کہی جاسکتی کہ یہ مذہب اہل بیت اور ان سے ثابت شدہ روایات کے خلاف ہے، اسی طرح اہل سنت کے خلاف ہونے کے ساتھ ان کی ساری روایات متضاد اور متعارض ہیں؟ [11] واضح ہو کہ اس مسئلہ میں اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے، اسی سے کلام کا آغاز ہوا ہے ، لیکن اس کی قول کی کیفیت نہیں بتائی جاسکتی، اللہ نے اسے اپنے رسول پر بذریعہ سے وحی نازل فرمایا اور
Flag Counter