Maktaba Wahhabi

1057 - 1201
ثابت ہے۔[1] لیکن اس مسئلہ میں اثنا عشری شیعہ جہمی عقیدہ کے دوش بدوش چلے، یعنی یہ کہا کہ قرآن اللہ کی مخلوق ہے، چنانچہ مجلسی کے زمانہ میں شیعہ کے عالم کبیر نے ’’البحار‘‘ کی ’’کتاب القرآن‘‘ میں ایک باب باندھا: ’’بَابُ أَنَّ الْقُرْآنَ مَخْلُوْقٌ‘‘[2]اور اس کے تحت گیارہ روایات ذکر کیں، جن میں بیشتر اس کے مسلک کے خلاف ہیں، لیکن شیعہ علمائے کبار نے ان روایات کی تاویل کردی، جس کی تفصیل میں آئندہ صفحات میں بتاؤں گا۔ آیۃ الشیعۃ محسن الامین کہتے ہیں: ’’شیعہ اور معتزلہ قرآن کو مخلوق مانتے ہیں۔‘‘[3] اور اس کی اساس یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ کے لیے صفت کلام نہیں مانتے، ان کا گمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بعض مخلوقات میں اپنا کلام پیدا کردیتا ہے جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوتے وقت درخت میں صفت کلام ودیعت کردی اور جیسے جبریل علیہ السلام میں اس وقت اپنا کلام پیدا کردیا، جب انھیں قرآن دے کر بھیجا۔[4] یہ تو ان کے چند ایک علماء کے تبصرے ہیں۔[5] لیکن اگر آپ ان کی طرف سے آل بیت کے بارے میں بیان کی جانے والی روایات کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ بیشتر روایات ان کے نظریہ کے مخالف ہیں، چنانچہ اس کی ایک مثال عیاش کی تفسیر میں دیکھی جاسکتی ہے، انھوں نے امام رضا کے حوالہ سے لکھا ہے، آپ سے قرآن کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ((اَنَّہُ کَلَامُ اللّٰہِ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ۔))[6] ’’وہ اللہ کا کلام ہے، مخلوق نہیں ہے۔‘‘ ابن بابویہ القمی کی التوحید میں ہے کہ ابوالحسن موسیٰ سے پوچھا گیا کہ اے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد! قرآن کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ ہم سے پہلے کے لوگوں کا اس سلسلہ میں اختلاف رہا ہے، کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ مخلوق ہے اور کچھ کا کہنا ہے کہ مخلوق نہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: جو وہ لوگ کہتے ہیں وہ میں نہیں کہتا، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔[7] ان کے پاس اس معنی کی بہت ساری روایات ہیں۔[8] البتہ اس مقام پر ایک بات واضح رہے کہ شیخ الشیعہ ابن بابویہ القمی نے اپنے دور میں مخلوق و غیر مخلوق سے متعلق ان نصوص کا ایک دوسرا رخ متعین کیا ہے، چنانچہ بعض ائمہ شیعہ کے قول ((اَلْقُرْآنُ غَیْرِ مَخْلُوْقٍ)) کا معنی اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ غیر مکذوب ہے، مخلوق سے وجودی ذات مراد نہیں لی[9] اور کہاکہ ہم قرآن کو مخلوق نہیں کہتے اس لیے کہ کبھی کبھی مخلوق لغت میں مکذوب کے معنی میں استعمال ہوتی ہے، کہا جاتا ہے: ((کَلَامُ مَخْلُوْقٍ)) یعنی ((کَلَامُ مَکْذُوْبٍ)) ہے۔[10]حالانکہ علمائے سلف نے ان کی تردید کی ہے اور کہا کہ ہم نے غیر مخلوق سے غیرمکذوب کبھی نہیں مراد لیا ہے، کیونکہ اس کے جھوٹ ہونے کا شک کرنا بالکل واضح کفر ہے، جو ہر مسلمان کو معلوم
Flag Counter