Maktaba Wahhabi

1006 - 1201
کھڑے ہوئے۔[1] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں چہ میگوئیاں زیادہ محض اس وجہ سے کہ آپ نے قبل ازیں اپنے فوجیوں کو زکوٰۃ کا اونٹ بطور سواری استعمال کرنے سے منع کردیا اور آپ کے نائب نے انھیں جو جوڑے پہنائے تھے انھیں واپس لے لیا تھا، غالب گمان ہے کہ یہی وجہ تھی، یقینا اللہ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مناسک حج سے فارغ ہو کر واپس لوٹ رہے تھے اور مدینہ کے راستہ میں غدیر خم سے گزرے تو آپ نے لوگوں میں خطبہ دیا۔ جس میں علی رضی اللہ عنہ کی صفائی پیش کی، آپ کی قدر و منزلت کو نمایاں کیا، اور آپ کی فضیلت سے لوگوں کو خبردار کیا تاکہ لوگوں کے دلوں میں علی رضی اللہ عنہ کے خلاف جو بدگمانیاں بیٹھ گئی ہیں وہ ختم ہوجائیں۔[2] آپ دیکھ سکتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ واپس ہونے تک اپنی بات کو مؤخر کیا، مکہ میں حجۃ الوداع کے دوران یا عرفہ کے دن جب کہ لوگوں کا جم غفیر تھا اس سلسلہ میں کوئی بات نہ کہی، بلکہ معاملہ کو مؤخر کیا یہاں تک کہ آپ مدینہ کے لیے واپس لوٹے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ معاملہ اہل مدینہ کے ساتھ خاص تھا، کیونکہ جن لوگوں نے بھی علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنی زبانیں کھولیں تھیں وہ سب مدینہ کے تھے اور وہی لوگ جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور پھر محل وقوع کے اعتبار سے بھی غدیر خم جحفہ میں ہے، جیسا کہ یہ بات گزر چکی ہے اور وہ مکہ سے تقریباً دو سو پچاس (250) کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’غدیر خم‘‘ حاجیوں کے ادھر جانے کا ایک عام چوراہا تھا ان کی بات صحیح نہیں ہے، اس لیے کہ حاجیوں کے اکٹھا ہونے کی جگہ اگر مکہ ہے تو انھیں اپنی منزل تک جانے کے لیے مکہ سے ڈھائی سو کلومیٹر کی دوری پر واقع چوراہے سے ہرگز منتشر نہیں ہونا ہوگا بلکہ وہ سب مکہ ہی سے اپنی اپنی منزل کا راستہ سدھار لیں گے، مکہ والے مکہ میں ٹھہر جائیں گے، اہل طائف طائف لوٹ جائیں گے، اسی طرح یمن والے یمن اور عراق والے عراق چلے جائیں گے، اس طرح تمام لوگ جو اپنے حج سے فارغ ہو چکے ہوں گے وہ اپنے اپنے شہر اور عربی قبائل اپنے اپنے قبائل میں واپس لوٹ جائیں گے۔ پس معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف اہل مدینہ اور جنھیں اس راستہ سے گزرنا تھا وہی لوگ آپ کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں لوگوں کو خطاب کیاتھا۔ بہرحال شیعہ اور سنی مسلمانوں میں اس واقعہ کے ثبوت کو لے کر کوئی اختلاف نہیں ہے، بلکہ اختلاف صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ((مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہٗ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہٗ)) کا معنی متعین کرنے میں ہے۔ چنانچہ روافض شیعہ ’’مولیٰ‘‘ کا معنی صاحب تصرف و اختیار بتاتے ہیں، یعنی میں جس کے معاملات میں تصرف و احتیار کا حق رکھتا ہوں علی بھی اس میں تصرف و اختیار کا حق رکھتے ہیں۔ جب کہ اہل سنت مولیٰ کا معنی دوست، نصرت اور محبت کرنے والا
Flag Counter