مدد کرے تو اس کی مدد فرما جو علی کا ساتھ چھوڑ دے تو اس کا ساتھ چھوڑ دے اور حق کو ان کے ساتھ کردے جہاں رہیں‘‘ تو یہ سب اضافے جھوٹ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط منسوب ہیں۔[1] ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خطبہ کا ایک مناسب پس منظر رہا ہے، چنانچہ بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو یمن میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تاکہ اموال غنیمت سے خمس وصول کرلیں اور اسے اپنے ہاتھ میں لے لیں، جب آپ خمس وصول کرنے لگے تو اموال غنیمت میں ایک لونڈی بھی تھی جو قیدیوں میں یہ سب سے اچھی و بہتر تھی، وہ خمس میں آگئی، پھر علی رضی اللہ عنہ اپنے خیمے سے نکلے اس حال میں کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے تھے اور اپنے سر کو ڈھانپے ہوئے تھے، لوگوں نے آپ سے اس سلسلہ میں پوچھا، تو آپ نے لوگوں کو بتایا کہ ایک عمدہ لونڈی قیدیوں میں تھی، وہ میرے حصہ میں آئی اور میں نے اس کے ساتھ صحبت کی، بعض نے یہ بات سن کر آپ کے اس عمل کو ناپسند کیا اور بریدہ جو کہ ذاتی طور سے اس مسئلہ میں علی رضی اللہ عنہ سے ناراض تھے، وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا خط لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے اور مذکورہ واقعہ میں علی رضی اللہ عنہ سے متعلق خالد رضی اللہ عنہ کے خط کی تصدیق کی، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا: ((لَا تُبْغِضْہُ فَاِنَّ لَہٗ فِی الْخُمْسِ اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ۔)) [2] ’’ان سے ناراض نہ ہو، انھیں خمس میں اس سے اور زیادہ ملنا چاہیے۔‘‘ پھر حجۃ الوداع کے موقع پر جب علی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ ہَدی کا جانور لے کر یمن سے لوٹے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ادا کرلیں[3] اور اس میں جلد بازی سے کام لیا تاکہ مکہ ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرلیں، تو آپ نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو فوج پر اپنا نائب مقرر کردیا اس ساتھی نے پوری فوج کو ان کپڑوں کے عمدہ جوڑے پہنا دیے جو علی رضی اللہ عنہ کے پاس رکھے ہوئے تھے، جب آپ کے پیچھے ہی آپ کی فوج مکہ سے قریب ہوئی تو آپ مکہ سے نکل کر ان سے ملنے گئے، دیکھا تو فوج کپڑوں کے عمدہ جوڑوں میں ملبوس ہے۔ آپ نے اپنے نائب کو مخاطب کرکے کہا: تمھارا ستیاناس ہو، تم نے یہ کیا کیا؟ اس نے کہا: میں نے ان لوگوں کو اس لیے یہ جوڑے پہنائے ہیں تاکہ جب یہ لوگوں میں پہنچیں تو قابل دید رہیں، آپ نے فرمایا: تمھارا ستیاناس ہو! اس سے قبل کہ تم اس حالت میں انھیں لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچو، انھیں اتروا دو، چنانچہ آپ نے جوڑوں کو اتروا دیا اور اسے کپڑے والے کے پاس جمع کردیا۔ علی رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے آپ کی فوج ناراض ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی، جب انھوں نے آپ سے علی رضی اللہ عنہ کی شکایت کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں خطبہ دینے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |