Maktaba Wahhabi

989 - 1201
ان میں سے کوئی بھی مذکورہ اوصاف کے ساتھ منصب خلافت پر فائز نہ ہوا۔ اسی طرح ان ائمہ میں سے کسی کے زمانہ میں بھی، جیساکہ شیعہ حضرات کا اعتراف ہے۔ امت کے حالات و معاملات درست اور اطمینان بخش نہ رہے بلکہ حالات ابتر ہی ہوتے گئے اور ان پر شیعوں کے زعم کے مطابق ظالم بلکہ کفار حکمران بنے رہے۔[1] ان کے ائمہ تقیہ کے ذریعہ سے اپنے دینی احکام و معاملات کو چھپائے رہتے تھے۔[2] بلکہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت جس میں آپ منصب خلافت پر فائز تھے تقیہ کا عہد تھا جیسا کہ ان کے بزرگ عالم دین المفید نے صراحت کی ہے۔[3] چنانچہ اس کے بقول آپ اپنے عہد میں قرآن تک ظاہر نہ کرسکے، اور نہ ہی اسلامی احکامات کا کوئی حکم نافذ کرسکے، جیسا کہ ان کے معتمد عالم الجزائری[4] کا بیان ہے۔ آپ مجبوراً دین کے حساب پر اپنے ساتھیوں کی تائید و قربت حاصل کرتے رہے جیسا کہ ان کے شیخ المرتضیٰ نے اقرار کیا ہے۔[5] تو حدیث ایک طرف اور ان لوگوں کے خیالات و مزاعم دوسری طرف، مزید برآں مذکورہ حدیث میں ائمہ کی تعداد کی تحدید نہیں ہے کہ ان کی تعداد صرف بارہ ہی ہوگی بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بس یہ پیشین گوئی ہے کہ اسلام ان بارہ خلفاء کے زمانہ میں غالب رہے گا اور فی الواقع خلفائے راشدین اور بنوامیہ کازمانہ مسلمانوں کے غلبہ اور شوکت کا زمانہ تھا۔[6] اسی لیے امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اسلام اور اس کے قوانین و فرامین کو بنوامیہ کے زمانہ میں جو وسعت و بالادستی حاصل رہی وہ بعد کے ادوار میں نہ رہی، پھر آپ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے: ((لَا یَزَالُ ہٰذَا الْاَمْرُ عَزِیْزًا إِلَی اثْنَا عَشَرَ خَلِیْفَۃً کُلَّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ۔)) ’’یہ دین بارہ خلفاء تک غالب رہے گا، سب کے سب قریش خاندان کے ہوں گے۔‘‘ پھر آپ فرماتے ہیں کہ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ابوبکر، عمر، عثمان اور علی خلیفہ ہوئے، پھر ایسے شخص نے منصب سنبھالا جس پر سارے لوگ متفق ہوئے اور اسے غلبہ و شوکت میسر ہوئی یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لڑکے یزید، پھر عبدالملک اور ان کے چاروں بیٹے، انھیں میں عمر بن عبدالعزیز بھی ہیں۔ ان خلفاء کے بعد امت میں جو کمی اور کمزوری آئی وہ آج تک باقی ہے، پھر آپ نے اس کی تشریح فرمائی ہے۔[7] آگے آپ رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حدیث میں ((کُلُّہُمْ مِنْ قُرَیْشٍ)) کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ ائمہ کرام علی اور آپ کی اولاد رضی اللہ عنہم کے ساتھ خاص نہیں ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے امتیازی اوصاف کو ذکر کردیا ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ: ((کُلُّہُمْ مِنْ وَلَدِ اِسْمَاعِیْلَ یَا
Flag Counter