Maktaba Wahhabi

966 - 1201
اور فرمایا: وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿١٠٠﴾ (یونس: 100) ’’اور وہ گندگی ان لوگوں پر ڈالتا ہے جو نہیں سمجھتے۔‘‘ اور کہا گیا ہے کہ ’’الرجس‘‘ کا معنی ناپاکی اور عذاب بھی ہوتا ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا: إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ (التوبۃ: 28) ’’یقینا مشرک لوگ ناپاک ہیں۔‘‘ اور فرمایا: أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ (الانعام: 145) خلاصہ کلام یہ کہ ’’الرجس‘‘ کا لفظ بنیادی طور سے ناپاکی اور گندگی کے لیے ہے، لیکن کبھی ’’رجس‘‘ بول کر شرک مراد لیا جاتا ہے، جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴿٣٠﴾ (الحج: 30) ’’پس بتوں کی گندگی سے بچو اور جھوٹی بات سے بچو۔‘‘ اور کبھی رجس بول کر حرام و ناپاک غذائیں مراد لی جاتی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا (الانعام: 145) ’’کہہ دے میں اس وحی میں، جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بے شک وہ گندگی ہے، یا نافرمانی (کا باعث) ہو۔‘‘ اور فرمایا: إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ (المائدۃ: 90) ’’شراب اور جوا اور شرک کے لیے نصب کردہ چیزیں اور فال کے تیر سراسر گندے ہیں، شیطان کے کام سے ہیں۔‘‘ مختصریہ کہ پورے قرآن میں یہ کہیں بھی ثابت نہیں کہ قرآن نے ’’رجس‘‘ کا لفظ مطلقاً گناہ کے معنی میں استعمال کیا ہو کہ کہا جائے کہ کسی فرد سے ’’رجس‘‘ کی دوری ثابت کرنے سے اس کی عصمت ثابت ہوجائے گی۔[1] د: کسی فرد کی گندگی سے ’’تطہیر‘‘ اس کی عصمت کو مستلزم نہیں:
Flag Counter