Maktaba Wahhabi

959 - 1201
بالکل واضح ہے کہ اگر کوئی شخص ظلم یا کفر کرنے کے بعد توبہ کرلے اور اپنے حالات کی اصلاح کرلے تو اسے ظالم یا کافر کہنا ہرگز درست نہ ہوگا اور اگر اسے درست مانا جاتا ہے تو گویا بچے کو بوڑھا، بوڑھے کو بچہ، خوابیدہ کو بیدار اور بیدار کو خوابیدہ، فقیر کو مال دار اور مال دار کو فقیر، شکم سیر کو بھوکا اور بھوکے کو شکم سیر، زندہ کو مردہ اور مردے کو زندہ کہنا درست ہوگا جب کہ یہ کسی کے یہاں معتبر نہیں ہے۔ نیز اگر اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو کافر سے سلام نہ کرنے کی قسم کھانے والے کے حق میں لازم آتا ہے کہ اگر وہ کسی ایسے مومن سے سلام کرتا ہے جو کہ کئی سالوں پیشتر کافر تھا، تو اس کی قسم ٹوٹ جائے گی، جب کہ اس کا کوئی قائل نہیں ہے۔[1] یہ بھی معلوم ہے کہ بعض اوقات ظلم سے توبہ کرنے والا شخص عملاً ظلم کا مرتکب نہیں ہوا ہوتا، لہٰذا جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ شخص جس نے سرے سے کفر نہیں کیا، کسی کو قتل نہیں کیا اور نہ کوئی گناہ کیا، وہ ان تمام لوگوں سے افضل ہے جو کفر چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے، گمراہی سے تائب ہو کر ہدایت کی راہ اپنائی اور اپنے گناہوں کے بعد توبہ کی تو اس کا یہ عقیدہ یقینی طور سے ثابت شدہ دینی حقائق کے بالکل خلاف ہے، کیونکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ سابقین اوّلین مسلمان اپنی اولادوں سے افضل ہیں، کیا کوئی عقل مند انسان مہاجرین و انصار کی اولاد کو ان کے آباء سے تشبیہ دے سکتا ہے۔؟[2] شیعہ حضرات کا یہ طریقہ استدلال ہمیں اس نتیجہ تک پہنچاتا ہے کہ بشمول شیعہ و اہل بیت تمام مسلمان ظالم قرار پائیں، کیونکہ ائمہ معصومین کے علاوہ بقیہ سب کے سب غیر معصوم ہیں۔ طوسی کا کہنا ہے کہ ’’ظلم‘‘ اسم مذمت ہے، لہٰذا جو شخص مستحق لعنت ہو صرف اسی کو ظالم کہا جاسکتا ہے، کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: أَلَا لَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الظَّالِمِينَ ﴿١٨﴾ (ہود: 18) ’’خبردار ہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔‘‘ د:…ایک زیدي شیعہ عالم اس آیت کریمہ سے اثنا عشریہ شیعہ کے استدلال کي تردید کرتے ہوئے: چنانچہ یہ زیدی شیعہ رقم طراز ہے: ’’روافض نے اس آیت سے اس بات کے لیے استدلال کیا ہے کہ جس نے زندگی میں کبھی ایک بھی ظلم کیا ہو وہ امامت کا مستحق نہیں ہوسکتا اور پھر انھوں نے ابوبکر و عمر کی امامت کو مورد طعن و تشنیع ٹھہرایا ہے، حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے کہ اگر عہد سے نبوت مراد لی جائے تو یہ آیت موضوع سے خارج ہے اور اگر اس سے امامت کبریٰ مراد لی جائے تو ایسی صورت میں جو شخص ظلم سے توبہ کرے اسے ظالم نہیں کہا جاسکتا، اللہ تعالیٰ نے صرف ظلم کی حالت میں ظالم کو یہ منصب دینے سے منع فرمایا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter