Maktaba Wahhabi

911 - 1201
دشمنی اور نفرت کو دوستی اور محبت پر غلبہ مل جاتا ہے، یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرتی خدمات میں ہاتھ بٹانا اسلامی دعوت کے فروغ کا اہم ذریعہ و وسیلہ ہے، اس لیے کہ یہ عملی چیز ہے، بات کے مقابلہ میں اس کا دل پر زیادہ اثر پڑتا ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ معاملات میں ہماری تندمزاجی اور مدد سے کنارہ کشی مخاطب کے دل میں کدورت کے گڑھے کھودتی ہے اور دشمنانِ دین ان کا استغلال کرکے انھیں بگڑے ہوئے انسانوں کی صفوں میں پہنچا دیتی ہیں۔ اسی طرح پرتشدد کارروائیوں کا ایک نمونہ یہ ہے کہ ان پُر جوش نوجوانوں میں سے کچھ ناعاقبت اندیشوں کی سختیاں، زبانوں کو پھاند کر قتل و خون ریزی تک پہنچ جاتی ہیں۔ وہ علماء کا خون بہاتے ہیں، بے گناہ محافظین کا خون بہاتے ہیں، یا کسی الگ تھلگ رہنے والے شہری کا خون بہاتے ہیں اور آخر میں آپ کو یہ جان کر تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ یہ بعض اوقات آپس ہی میں ٹکرا جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف اپنی زبانیں اور ہاتھ بڑھاتے ہیں، میری یہ بات کوئی عجوبہ نہیں ہے، اگر آپ کتاب اللہ، سنت رسول اور منہج سلف سے بے زار فرقوں کی تاریخ کا تھوڑا سا مطالعہ کریں گے تو یہ سب ان کے یہاں پائیں گے، یہ گمراہ فرقے ایک دوسرے کے قتل کے درپے رہے ہیں، ایک دوسرے کو گمراہ ٹھہرایا ہے اور ایک دوسرے کی تکفیر کی ہے۔ تو ہمیں حیرت زدہ ہونے کی ضرورت نہیں، خاتم الانبیاء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا منہج رشد و ہدایت چھوڑنے کا یہی انجام ہوتا ہے۔ دعوت و ارشاد اور لوگوں کے معاملات میں سختی و تشدد سے متعلق اسلام کا موقف بالکل واضح ہے۔ اللہ تعالی موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون رحمۃ اللہ علیہم کو حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے: اذْهَبَا إِلَىٰ فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَىٰ ﴿٤٣﴾ فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَىٰ ﴿٤٤﴾ (طٰہٰ:43،44) ’’دونوں فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ سرکش ہوگیا ہے۔ پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔‘‘ یہ ہیں فرعون جیسے ظالم کو دعوت دینے کے لیے موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام کو ہمارے رب کی رہنمائیاں یعنی حق کی دعوت نرمی کے ساتھ، کیونکہ اس طرز دعوت کو ذہن جلدی قبول کرتا ہے اور دل میں خوف پیدا کرتا ہے۔اور فرمایا: وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾ (فصلت:34، 35) ’’اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقہ) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہے ۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے ۔‘‘
Flag Counter