انھیں روکنے میں شدت اور تنگ نظری سے کام لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سختی کا راستہ ہی برائیوں کا ازالہ کرے گا اور اسی سے تجدید دین کا کام ہوگا، ان کی نگاہوں سے نرمی کا اسلوب غائب ہے حالانکہ یہی اس سفر کی اصلی متاع ہیں، جب اس کے تمام راستہ بند ہوجائیں تبھی دوسرا راستہ اپنایا جاسکتا ہے، کیونکہ یہی اسلوب نفع بخش اور موثر ہے۔ سختی تو عموماً نفرت کا سبب بنتی ہے اور مخالف کو ضدی بنا دیتی ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس فکر کے حامل نوجوان یہ فرق نہیں کرپاتے کہ کون علم کی بنا پر ہماری مخالفت کر رہا ہے اور کون جہالت کی بنا پر، کون بدعت کی طرف بلانے والا ہے اور کون دھوکا میں آکر گمراہی کی چوکھٹ پر قربان ہے، کون سی رائے متفق علیہ ہے اور کون مختلف فیہ ہے۔ ان نادان نوجوانوں میں ایک قابل نفرت بات یہ بھی دیکھی گئی ہے کہ والدین کے ساتھ ان کا برتاؤ نہایت بھونڈا اور ناپسندیدہ ہوتا ہے۔ ان کی نگاہوں میں ان دونوں کے تقدس و احترام کا کوئی معنی نہیں، نہ ان کی مدد کرتے ہیں اور نہ ہی خدمت، یہ بھول گئے کہ اوروں سے ہٹ کر ان دونوں کا ایک الگ مقام و مرتبہ ہے اور جس دعوت و ارشاد کے یہ علم بردار ہیں، یہ انھی کی مرہون منت ہیں۔ میری اس گفتگو کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں خوش کرنے کی خاطر گناہ کا ارتکاب کیا جائے، یا دینی عمل اور دعوتی کاوشوں سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، نہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے ہمارا برتاؤ مؤدبانہ ہو، گفتگو نرم لب و لہجہ میں ہو، ان کے ساتھ معاشرت کا اسلوب پر محبت ہو، ان کی نامناسب حرکات پر صبر ہو اور انھیں شفقت و محبت کا پیغام ملے۔ اللہ نے فرمایا: وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ ﴿١٤﴾ وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿١٥﴾ (لقمان:14، 15) ’’اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھائے رکھا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا ۔ میری ہی طرف لوٹ کرآنا ہے اوراگر وہ دونوں تجھ پر زور دیں کہ تو میرے ساتھ اس چیز کو شریک کرے جس کا تجھے کوئی علم نہیں تو ان کا کہنا مت مان اور دنیا میں اچھے طریقہ سے ان کے ساتھ رہ اور اس شخص کے راستہ پر چل جو میری طرف رجوع کرتا ہے، پھر میری ہی طرف تمھیں لوٹ کر آنا ہے، تو میں تمھیں بتاؤں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔‘‘ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ہمارے بعض مبلغین دوست ایسے لوگوں کی مدد کرنے سے کتراتے ہیں جو اچھائیوں کے ساتھ برائیاں بھی کر گزرے ہیں۔ ان کی نگاہوں میں یہ لوگ کسی خدمت، مفید مدد، بلکہ اچھی گفتگو کے بھی مستحق نہیں ہیں۔ ہمارے ان نوجوان دوستوں نے دوستی اور دشمنی کا مفہوم اور ان کی حدود و قیود کو سمجھا ہی نہیں، جس کی وجہ سے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |