Maktaba Wahhabi

893 - 1201
مجاہد نے ان کی کسی رائے سے اختلاف کیا اسے مجروح قرار دیا اور اس سے پہلو تہی کرنے لگے، پس یہی وہ مقام ہے جہاں سے خطرات کی آہٹ آتی ہے اور انتشار کا دروازہ وا ہوتا ہے۔ بعض علماء نے جب اسی خیال کے ایک نوجوان سے گفتگو کی تو کہا: علمائے دین پر تمھارا عدم اعتماد دیکھ کر مجھے اندیشہ ہے کہ تم لوگ دو میں سے ایک یا دونوں غلطیاں ضرور کرو گے، ایک تویہ کہ اجتہاد کی کامل صلاحیت و تیاری کے بغیر اجتہاد کرو گے، یا دوسرا یہ کہ صرف کتب کے مطالعہ و مراجعہ کو کافی سمجھو گے، کسی اور سے کوئی مدد نہ لو گے اور ان دونوں میں جو خطرناکیاں ہیں وہ پوشیدہ نہیں ہیں، چنانچہ بعض جوش سے لبریز نوجوانوں نے بعد میں اعتراف بھی کیا ہے کہ بلاشبہ ہم دونوں غلطیوں میں واقع ہوگئے۔[1] تقلید کي مذمت میں غلو: بلاشبہ قرآن مجید نے تقلید اور مقلدین کی مذمت کی ہے اور سلف نے اس راستہ پر چلنے سے منع کیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللَّـهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۗ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ﴿١٧٠﴾ (البقرۃ: 170) ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے اس کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل کیا ہے تو کہتے ہیں بلکہ ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں۔ ‘‘ ائمہ میں سے امام شافعی فرماتے ہیں: ’’جو شخص علم کو بغیر دلیل کے طلب کرتا ہے اس کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے جیسی ہے جس کی کلائی کو سانپ ڈس لے اور اسے معلوم ہی نہ ہو۔‘‘[2] امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’لوگو خبردار! نہ میری تقلید کرنا، نہ امام مالک کی، نہ ثوری کی نہ اوزاعی کی، بلکہ احکام وہاں سے لو جہاں سے ان بزرگوں نے لیے ہیں۔‘‘[3] امام ابویوسف نے فرمایا: ’’لوگوں پر ہمارے اقوال کا لینا حرام ہے، جب تک وہ یہ نہ معلوم کرلیں کہ ہم نے کہاں سے لیا ہے۔‘‘[4] ان نوجوانوں نے یہ سب پڑھا اور یہ بھی پڑھا کہ عالم کے مقابل میں ایک مقلد کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی کہ
Flag Counter