((أَطِعْ أَ بَاکَ مَا دَامَ حَیًّا وَلَا تَعْصِہُ فَأَنَا مَعَکُمْ وَ لَسْتُ اُقَاتِلُ۔))[1] ’’اپنے باپ کی جب تک وہ زندہ ہیں اطاعت کرو، ان کی نافرمانی نہ کرو، اس لیے میں آپ لوگوں کے ساتھ ہوں، لڑائی نہیں کروں گا۔‘‘ مذکورہ روایات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ فقیہ صحابی عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما حق اور بھلی بات کہنے کے کس قدر حریص ہیں، جب آپ نے دیکھا کہ عمار رضی اللہ عنہ کی قتل کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی فوج ہی باغی گروہ ٹھہرا تو آپ نے مختلف مواقع پر اس کی مذمت کی اور نفرت کا اظہار کیا، بلاشبہ اس حدیث کی وجہ سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی شہادت کا اہل شام پر بے حد گہرا اثر تھا، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کی بے جا تاویل کردی، آپ کی یہ تاویل درست نہیں ہے کہ جو لوگ ان کو میدان صفین میں لائے تھے، وہی ان کے قاتل ہیں۔ [2] عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کی شہادت نے بشمول دیگر صحابہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ پر بھی زبردست اثر ڈالا، بلکہ صحیح معنوں میں عمار رضی اللہ عنہ کی شہادت، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لیے جنگ بندی کی کوشش کا سبب بنی۔[3] آپ اس حادثہ سے اس قدر غمزدہ ہوئے کہ فرمایا، کاش کہ میں آج سے بیس سال قبل ہی مرجاتا۔[4] صحیح بخاری میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ہم (مسجد نبوی کی تعمیر میں حصہ لیتے وقت) ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے، لیکن عمار رضی اللہ عنہ دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا: ((وَیْحَ عَمَّارٍ تَقْتُلُہُ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ، یَدْعُوْہُمْ إِلَی الْجَنَّۃِ وَیَدْعُوْنَہٗ إِلَی النَّارِق۔)) ’’افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی، جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہوگی۔‘‘ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔[5] علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند تواتر ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشین گوئی اور معجزات نبوت میں سے ایک معجزہ تھا، یہ حدیث صحیح ترین احادیث میں سے ہے۔[6] اما م ذہبی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اس بات میں متعدد صحابہ سے روایات ثابت ہیں، چنانچہ یہ حدیث متواتر ہے۔[7] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |