Maktaba Wahhabi

706 - 1201
ہیں اور خواتین جنت میں بھی سب سے افضل ہیں، جیسا کہ نصوص حدیث میں وارد ہے۔[1] اور عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت پر دلالت کرنے والی یہ حدیث ((فَضْلُ عَائِشَۃَ عَلَی النِّسَائِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلَی سَائِرِ الطَّعَامِ))…’’عائشہ کی تمام عورتوں پر فضیلت ایسے ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔‘‘تو اس حدیث کے الفاظ عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت مطلقہ پر دلالت نہیں کرتے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: ’’اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی دیگر خواتین پر افضلیت کی صراحت نہیں ہے،اس لیے کہ دیگر کھانوں میں ثرید کی فضیلت صرف اس اعتبار سے ہے کہ اسے بنانا اور کھانا آسان اور لذیز ہوتا ہے اوریہی اس وقت کی سب سے عمدہ غذا تھی اوریہ خصوصیات اس بات کو مستلزم نہیں ہیں کہ ہر اعتبار سے یہ کھانا دیگر کھانوں سے افضل ہی ہو، بلکہ ممکن ہے کہ بعض دیگر اعتبارات سے دوسرے کھانے اس سے افضل ہوں۔‘‘[2] تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث امت مسلمہ کی تمام خواتین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت کی دلیل ہے، لیکن خدیجہ اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے بعد، کیونکہ ان دونوں سے متعلق واضح اور صریح دلائل موجود ہیں اور انھی دلائل نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی افضلیت کو مقید کردیا ہے۔[3] ٭ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث جس میں ہے کہ انھوں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ‘‘ ۔[4] حافظ ابن حبان نے اس حدیث کے بارے میں اشارہ کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب آپ کی ازواج مطہرات کے ساتھ مقید ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں، چنانچہ آپ اپنی صحیح میں باب باندھتے ہیں: ((ذِکْرُ خَبْرٍ وَہِمَ فِي تَاوِیْلِہِ مَنْ لَمْ یُحْکِم صَنَاعَۃَ الْحَدِیْثِ۔)) (اس حدیث کا ذکر جس کی تاویل میں ان لوگوں کو وہم ہوا ہے جو فن حدیث کے ماہر نہیں ہیں) اور اس میں عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی حدیث اس طرح نقل کرتے ہیں: ’’میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟‘‘ آپ نے جواب دیا: ’’عائشہ‘‘ میں نے کہا: ’’میں عورتوں کے بارے میں نہیں پوچھ رہا ہوں بلکہ مردوں کے بارے میں میرا سوال ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’ابوبکر‘‘ یا فرمایا: ’’ان کے باپ۔‘‘ حافظ ابن حبان اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد یہ عنوان قائم کرتے ہیں: ((ذِکْرُ الْخَبْرِ الدَّالِ عَلَی أَنَّ یَخْرَجَ ہٰذَا السَّوَالِ وَالْجَوَابِ مَعًاکَانَ عَنْ أَہْلِہِ دُوْنَ سَائِرِ النِّسَائِ مِنْ فَاطِمَۃَ وَ غَیْرِہَا۔)) (اس حدیث کا ذکر جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ سوال و جواب آپ کی بیوی سے متعلق تھانہ کہ دیگر تمام عورتوں فاطمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ سے متعلق) چنانچہ اس کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی ہی سند سے انس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث
Flag Counter