Maktaba Wahhabi

650 - 1201
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما تھے۔[1] امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں روافض کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عائشہ رضی اللہ عنہا قدیم جاہلیت کے زمانہ کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار کرنے نہیں نکلیں اور کسی ایسی مصلحت کی خاطر گھر سے باہر نکلنا، جس کی وہ مکلف ہو، گھر میں قرار سے رہنے کے منافی نہیں ہے، جیسا کہ حج وعمرہ میں یا اپنے شوہر کے ساتھ سفرپر نکلنا گھر میں رہنے سے منافی نہیں ہے۔ آپ دیکھیں! یہ آیت کریمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ساتھ سفر کیا اور حجۃ الوداع میں عائشہ رضی اللہ عنہا اور ان کے علاوہ دیگرازواج مطہرات کو لے کر نکلے اور عائشہ رضی اللہ عنہا کو ان کے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تنعیم سے عمرہ کرانے کے لیے بھیجا، انھوں نے آپ کو اپنی سواری پر پیچھے بٹھا یا اور وہاں سے عمرہ کرایا۔ یہاں یہ التباس نہ ہونا چاہیے کہ یہ واقعہ مذکورہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے، بلکہ یہ آیت کریمہ کے نزول کے بعد آپ کی وفات سے تقریباً تین ماہ قبل حجۃ الوداع کا واقعہ ہے، یہی وجہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفاء کے زمانہ میں حج پر جاتی تھیں، جس طرح آپ کی زندگی میں آپ کے ساتھ جاتی تھیں، بلکہ عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور خلافت میں ان کے سفر حج کے وقت عثمان رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو ان کی حفاظت کے لیے ساتھ لگادیتے تھے۔ چونکہ دینی مصلحت ومفاد کے لیے ان کا سفر کرنا جائز تھا، اس لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے سوچا کہ یہ سفر بھی جائز ہے کیونکہ یہ مسلمانوں کے مفاد ومصلحت کے حق میں ہے۔ [2] ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دراصل عائشہ رضی اللہ عنہا کا جنگ جمل میں جانا جنگ کی خاطر نہ تھا، بلکہ لوگ آپ کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور مسلمانوں کی باہمی خون ریزی وفساد اور زبر دست فتنہ سے دور چار ہونے کی بار بار آپ سے شکایت کررہے تھے اور خود وہ لوگ اس امید میں تھے کہ آپ کی بابرکت ذات سے اصلاح ہوسکتی ہے، اور ممکن ہے کہ جب آپ رضی اللہ عنہا لوگوں کو سمجھانے کے لیے کھڑی ہوں تو لوگ ان کی شخصیت سے متاثر ہوں اور خود آپ بھی یہی گمان کررہی تھیں۔ چنانچہ آپ اللہ کے اس حکم کی بجاآوری کرنے کے لیے نکلیں: لَّا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِّن نَّجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّـهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا ﴿١١٤﴾ (النسائ:114) ’’ان کی بہت سی سر گوشیوں میں کوئی خیر نہیں، سوائے اس شخص کے جو کسی صدقہ یا نیک کام یا لوگوں کے درمیان صلح کرانے کا حکم دے اور جو بھی یہ کام اللہ کی رضا کی طلب کے لیے کرے گا تو ہم جلد ہی
Flag Counter