Maktaba Wahhabi

644 - 1201
اچھی خاصی طاقت ہے۔ آپ نے سوچا کہ ان سے قتال کر کے کسی طرح انھیں اپنے تابع کیا جائے، تاکہ مسلمانوں میں اتحاد اور ان کو اجتماعیت حاصل ہو جائے۔ ‘‘[1] آپ عراق گئے تاکہ شام سے قریب ہوجائیں، آپ کے لشکر میں کثیر تعداد میں قاتلین عثمان گھسے ہوئے تھے، خاص طور سے اہل بصرہ اور اہل کوفہ کی فوج میں ان کی تعداد زیادہ تھی۔ اسی طرح وہ محفوظ پوزیشن اور اپنے اپنے قبائل کے حفاظت میں تھے، علی رضی اللہ عنہ سوچتے تھے کہ موجودہ صورت حال میں ان لوگوں پر حد قصاص نافذ کرنے سے فساد کا ایسا دروازہ کھل جائے گا کہ شاید اس کا بند کرنا قابو سے باہر ہو۔ ایک جلیل القدر صحابی قعقاع بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ نے اس حقیقت کو اچھی طرح بھانپ لیا اور ام المومنین عائشہ، طلحہ اور زیبر رضی اللہ عنہم سے اس سلسلہ میں گفتگو کی۔ چنانچہ ان سب لوگوں نے ان کی بات مان لی، علی رضی اللہ عنہ کو معذور قرار دیا، ان کے موقف کی تائیدکی اور دو خرابیوں میں سے چھوٹی اور کم تر درجہ کی خرابی کے ارتکاب والی درست رائے کو منظور کرلیا۔ سچی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ جس تاخیر، بردباری اور عجلت سے گریز کی دعوت دے رہے تھے، ایک دور اندیش سیاست کا تقاضا بھی وہی تھا۔کیونکہ ایک متفقہ رائے سامنے لانے اور مرکز خلافت کو چیلنج کرنے والے عناصر کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری امت کی صف بندی اور باہمی اتحاد کی ضرورت تھی، لیکن اجتہادات کے اختلافات نے خلیفۃ المسلمین کے جدید مرکز کو کمزور کردیا اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص سے متعلق تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔[2] اس موضوع کے اختتام پر چند ایسے قوی ترین دلائل کو ذکر کر دینا نہایت مناسب ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ، زبیراور معاویہ رضی اللہ عنہم کے بالمقابل علی رضی اللہ عنہ کا خیال درست تھا۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَیْحَ عَمَّار تَقْتُلُہْ الْفِئَۃُ الْبَاغِیَۃُ۔)) [3] ’’عمار پر افسوس ہے، انھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث دلائل نبوت میں سے ایک بڑی دلیل ہے علی اور عمار رضی اللہ عنہما کی نمایاں فضیلت اور نظریۂ نواصب کی تردید پر مشتمل ہے، جو کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اپنی جنگوں میں حق پر نہ تھے۔‘‘ [4] اور نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صریح روایات ثابت ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ صحیح موقف اور حق پر تھے اور دوسری جماعت یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھی باغی اور متاوّل تھے۔ نیز ان روایات میں تصریح ہے کہ دونوں جماعتوں کے لوگ مومن ہیں۔ باہمی خون ریزی کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہیں اور انھیں
Flag Counter