Maktaba Wahhabi

610 - 1201
کہتے: ’’ لوگ جس فتنہ میں ہیں ہم اس سے عافیت میں ہیں۔‘‘ [1] ان اقتباسات سے ابن سبا کا وہ اسلوب ظاہر ہورہا ہے جسے اس نے فتنہ ابھارنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ اس کی کوشش تھی کہ لوگوں کی نگاہ میں دوعظیم المرتبت صحابہ کرام کے درمیان اختلافات کو ثابت کرلے، جس کے لیے اس نے دونوں میں سے ایک یعنی علی رضی اللہ عنہ کو مظلوم اور دوسرے یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کو غاصب دکھایا، اس کے بعد اس نے لوگوں کو اور خاص طور سے اہل کوفہ کو ان کے امراء وحکام کے خلاف امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے نام سے بھڑکانے کی کوشش کی، نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ چھوٹے چھوٹے معاملات کو لے کر اپنے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اتر آتے۔ ایک دوسرا اسلوب یہ اختیار کیا کہ اپنے اس حملہ میں سادہ دل بدوؤں کو استعمال کیا، تاکہ ان کے ذریعہ سے اپنا منصوبہ نافذکرسکے، ان میں جو قراء تھے، انھیں امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے نام پر بہکایا۔ لالچیوں اور دولت کے پجاریوں کو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جھوٹے اور سخت تکلیف دہ پروپیگنڈہ کے ذریعہ سے بھڑکایا، مثلا یہ ہنگامہ کھڑا کیا کہ انھو ں نے سرکاری مناصب پر اپنے قرابت داروں کو مقرر کردیا ہے، مسلمانوں کے بیت المال سے ناجائز طور سے مال اپنے قرابت داروں میں لٹا رہے ہیں اور حکومتی چراگاہ کو اپنے لیے خاص کرلیا ہے، اس کے علاوہ آپ پر اور کئی تہمتیں لگائیں، جن سے ہنگامہ آرائی کرنے والے لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف مزید غصہ سے بھڑک اٹھے۔ حالانکہ آپ ان تمام تہمتوں سے بالکل پاک صاف تھے۔ پھر ایک تیسرا اسلوب یہ اختیار کیا کہ اپنے پیروکاروں کو نصیحت کی کہ سب اپنے اپنے شہروں سے دوسرے شہروں میں غلط اور غصہ بھڑکانے والی خبروں پر مشتمل خطوط بھیجیں۔ اس طرح ملک کے تمام شہروں میں لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ حالات اب بد سے بدتر ہوچکے ہیں اور اس کا فائدہ راست طور سے سبائیوں کو پہنچے گا، کیونکہ عوام الناس کے زبانی حالات کی ابتری کی تصدیق سے اسلامی معاشرہ میں شرانگیزی پھیلانے کا انھیں موقع مل جائے گا۔[2] دوسری طرف عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ احساس ہو رہا تھاکہ شہروں میں کچھ نہ کچھ شرانگیزی پھیل رہی ہے اور معاملہ بگاڑ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس لیے آپ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم! بے شک فتنہ کی چکی گھوم چکی ہے۔ اگر عثمان کی موت اس حالت میں ہوئی کہ اس نے اسے حرکت نہ دی تو عثمان کے لیے خوشخبری ہے۔‘‘[3] ابن سبا کی سرگرمیوں کا مرکز مصر تھا۔ اس نے وہیں سے عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی ساز ش کو منظم کیا تھا اور یہ پروپیگنڈہ کر کے کہ عثمان نے خلافت پر ناحق قبضہ کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی یعنی علی رضی اللہ عنہ کے حق کو غصب کرلیا ہے۔ فتنہ کی آگ بھڑکانے کے لیے لوگوں کو مدینہ چلنے پر ابھارنے لگا۔[4]
Flag Counter