ھ:…شبہات کي بنا پر حدود کا ازالہ: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک شبہات کی وجہ سے حدود معاف کردی جائیں گے، چنانچہ ضحاک بن مزاحم علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب حدود کے معاملہ میں ’’شاید‘‘ یا ’’ممکن‘‘ داخل ہوجائے تو حد معطل ہے۔[1] علی رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے کہ آپ کے پاس ایک عورت آئی اور کہا: میں زنا کا مرتکب ہوئی ہوں، آپ نے فرمایا: کہیں ایسا تو نہیں کہ تم اپنے بسترپر سو رہی تھی اور نیند کی حالت میں بدکاری ہوئی؟ یا تم سے جبراً ایسا کیا گیا؟ اس نے کہا: میں نے اپنی رضا مندی سے کیا ہے، مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا، آپ نے کہا: شاید کسی مجبوری میں ایسا ہوا، اس نے کہا: کسی مجبوری کے تحت ایسا نہیں ہوا۔ پھر آپ نے اسے قید کرنے کا حکم دیا اور جب بچہ پیدا ہوا اوراس کا لڑکا بڑا ہوگیا تب آپ نے اسے کوڑے لگوائے[2] واضح رہے کہ شادی شدہ نہ تھی اس لیے آپ نے کوڑے لگوائے۔ و:…جب نصراني عورت زنا کا ارتکاب کرے: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک اگر نصرانی عورت زنا کا ارتکاب کرے تو اس پر حد نافذ نہیں کی جائے گی بلکہ اسے اس کے مذہب والوں کے حوالہ کردیا جائے گا اوروہ اپنے مذہب کے مطابق اسے سزا دیں گے۔[3] چنانچہ قابوس بن مخارق سے روایت ہے کہ محمد بن ابوبکر نے علی رضی اللہ عنہ کے نام خط تحریر کرکے دریافت کیا کہ ایک مسلمان نے ایک نصرانی عورت سے زنا کرلیا ہے، آپ نے جواب لکھا کہ مسلمان پر حد نافذ کرو اور نصرانیہ کو اس کے مذہب والوں کو سونپ دو۔[4] بے شک حد زنا کی تنفیذ ایک تعبدی امر ہے جس میں مرتکب کو گناہوں سے پاک کیا جاتاہے، پس کوئی ایسا فرد جو اسلام میں داخل ہی نہ ہو اسے یہ سزا دینے کاکوئی مطلب نہیں۔[5] ز:…جس شخص پر حد نافذ کي جائے وہ اس کے گناہ کے لیے کفارہ ہے: ابولیلیٰ قبیلۂ ہذیل کے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں اور اس کا شمار قریش میں ہوتا ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے برائی کی اور اس کی پاداش میں اس پر حد نافذ ہوگئی تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔[6] ایک روایت میں ہے کہ جب شراحہ کو رجم کیا گیا تو میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا میں نے کہا: یہ انتہائی بری حالت میں مری، آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، یا کوڑا تھا، آپ نے میری بات سن کر اسی سے مجھے اتنے زور سے مارا کہ مجھے تکلیف ہوگئی، میں نے کہا: آپ نے مجھے مار کر تکلیف دی، آپ نے فرمایا: اگرچہ میں نے مارا، راوی کا بیان ہے کہ پھر آپ نے فرمایا: یہ اپنے اس گناہ کے بارے میں کبھی نہ پوچھی جائے گی۔[7] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |