Maktaba Wahhabi

451 - 1201
پوچھیں، اس طرح آپ نے ہر ایک سے بیان لے لیا اور اس نتیجہ پرپہنچے کہ ہر ایک کا بیان دوسرے کے خلاف اور متعارض ہے۔ پھر آپ نے پہلے آدمی کوبلایا اور اس سے یوں ہم کلام ہوئے: اے اللہ کے دشمن! تیرے ساتھیوں کے بیانات سن کر میں نے تیرے عناد اور جھوٹ کو جان لیا ہے، اب سچائی کے علاوہ کوئی چیز تمھیں سزا سے نہیں بچاسکتی، پھر آپ نے اسے قید خانہ میں ڈالنے کا حکم دے دیا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگایا، تمام حاضرین نے بھی اللہ اکبرکہا، جب مجرموں نے یہ صورت حال دیکھی تو سب کو یقین ہوگیا کہ ا ن کے ساتھی نے اعتراف جرم کرلیا ہے۔ پھر آپ نے دوسرے کو بلایا اور اسے ڈرایا دھمکایا، اس نے کہا: اے امیر المومنین! اللہ کی قسم! میں ان لوگوں کے کام کو پسند نہیں کررہا تھا، اس طرح آپ نے سب کو بلایا اور سب نے حقیقت واقعہ کا اعتراف کیا، پھر جو شخص قید خانے میں تھا اسے بلوایا اور اس سے کہا گیا کہ تمھارے ساتھی حقیقت واقعہ کا اعتراف کرچکے ہیں اور اب سچائی کے علاوہ کوئی چیز تمھیں سزا سے نہیں بچا سکتی، چنانچہ اس نے بھی اقرار کرلیا، پھر آپ نے سب پر مالی تاوان عائد کیا اور قتل کے بدلے ان سب کو قصاص میں قتل کیا۔[1] یہ واقعہ جہاں تحقیق و تفتیش کرنے والوں کے لیے بے شمار معانی و فوائد فراہم کرتا ہے وہیں اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے عہد میں قید خانہ کا وجود تھا اور پولیس کے افراد پائے جاتے تھے۔[2] صرف یہی نہیں بلکہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں ’’نافع‘‘ نام سے ایک قید خانہ بنوایا تھا، جس سے وقتاً فوقتاً قیدی نکل بھاگنے میں کامیاب ہوجاتے تھے کیونکہ وہ زیادہ مستحکم نہ تھا، لیکن اس طرح کے حادثات کے بعدآپ نے اسے ڈھا دیا اوراس کے بدلے ’’مخیّس‘‘[3]نام کا ایک جیل خانہ تیار کروایا۔ قیدیوں کے لیے خوراک مقرر کی، انھیں کھانا، و سالن اور سردی وگرمی میں لباس دیتے تھے۔[4] امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے کئی پولیس انسپکٹر تھے، ان میں ابوالہیاج اسدی، قیس بن سعد بن عبادہ،
Flag Counter