Maktaba Wahhabi

444 - 1201
’’یہ آخری گھر، ہم اسے ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو نہ زمین میں کسی طرح اونچا ہونے کا ارادہ کرتے ہیں اور نہ کسی فساد کا۔‘‘ پھر فرماتے: یہ آیت کریمہ عدل پرور اور تواضع پسند حکمرانوں اور تمام اصحاب مقدرت لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[1] خلال اپنی سند سے نقل کرتے ہیں کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علی رضی اللہ عنہ بازار جاتے اور فرماتے: ’’اے بازار کے لوگو! اللہ سے ڈرو، خاص طور سے قسم کھانے سے بچو کیونکہ قسم سامان کو فروخت ضرور کروا دیتی ہے لیکن برکت کو ختم کردیتی ہے، تاجر تو فاجر ہوتا ہے، سوائے اس تاجر کے جو لینے اور دینے میں حق کو ترجیح دے، والسلام علیکم، پھر لوٹ جاتے، کچھ دیر بعد پھر واپس آتے اور یہی باتیں دہراتے۔‘‘[2] ابوالصہباء کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا ’’شَطُّ الْکَلَأِ‘‘ میں علی رضی اللہ عنہ سامان کی قیمت معلوم کر رہے تھے۔[3] بہرحال امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا براہ راست بازاروں کی ایسی نگرانی کرنا چند اہم معاملات کی طرف اشارہ کرتا ہے: الف: بازار میں آپ کی گردش فقط نگرانی اور زبانی رہنمائی تک محصور نہ تھی، بلکہ عملاً لوگوں کے تعاون اور ہمدردی کی شکل میں یہ چیزی دیکھی گئی، جیسا کہ بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھانا اور کمزور کی مدد کرناو غیرہ، پس جس کی یہ حالت ہو کہ اس کے قول و عمل میں ہم آہنگی ہو اس کی باتیں اور رہنمائیاں زیادہ مؤثر اور سامعین کے دلوں کو چھونے والی ہوتی ہیں۔ ب: آپ کی رہنمائی اس بات کو شامل ہے کہ اللہ سے تقویٰ اختیار کرنا اور اچھی طرح تجارت کرنا ہر تاجر پر فرض ہے، کیونکہ جو شخص جتنا ہی متقی ہوگا لوگوں کے ساتھ اس کے معاملات اتنے ہی بہتر ہوں گے، یعنی اس کی ترجیح ہوگی کہ لوگوں کو نفع پہنچائے اور انھیں دھوکا دینے سے دور رہے۔وقفہ وقفہ سے آپ انھیں قرآن سے بھی وعظ فرمایا کرتے تھے، ج: معاملات میں ظلم کی ممانعت اور حق دار تک حق پہنچا دینے کی تلقین ہے، چنانچہ جس لونڈی نے کھجوریں خریدی تھیں جب اس کے آقا نے اس خرید و فروخت کو قبول نہ کیا اور دوکان دار بھی انھیں واپس لینے سے انکار کر نے لگا حالانکہ یہ لونڈی اس معاملہ میں بااختیار نہ تھی، تو علی رضی اللہ عنہ نے معاملہ میں مداخلت کرکے دوکاندار کو ظلم کرنے سے منع کیا اور بیع کو فسخ کردیا۔ د: بازار میں دھوکا دہی کے مختلف انواع و اقسام کی نشان دہی اوران کی ممانعت کی گئی ہے، جیسا کہ آپ نے
Flag Counter