کے راستہ میں خرچ کرنا۔ [1] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اَلْإِیْمَانُ بِضْعٌ وَّ سَبْعُوْنَ شُعْبَۃً، أَفْضَلُہَا قَوْلُ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَ أَدْنَاہَا إِمَاطَۃُ الْأَذٰی عَنِ الطِّرِیْقِ، وَالْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْإِیْمَانِ۔))[2] ’’ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل ’’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘‘ کا اقرار کرنا اور سب سے ادنیٰ راستہ سے تکلیف دہ چیز ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ اس حدیث میں کلمۂ توحید کی شہادت کا تعلق ’’قول و اقرار‘‘ سے ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے کا تعلق ’’عمل‘‘ سے اور حیا کا تعلق اخلاق و سلوک سے ہے ۔ پس ان تینوں کو بزبان رسالت ایمان میں شمار کرنا ہی دراصل ایمان کی تعریف و توضیح ہے۔ ایمان کی بیشتر شاخوں کا تعلق عمل ہی سے ہے۔[3] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں: ایمان نام ہے قول اور عمل کا، وہ بڑھتا ہے اور گھٹتا ہے…، اللہ کی رضا کی خاطر کسی سے محبت کرنا، اور اللہ کی رضا کی خاطر کسی سے بغض رکھنا ایمان کا ایک حصہ ہے… عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایمان کے فرائض، شرائع اور حدود وسنن ہیں، جس نے انھیں مکمل طریقہ سے ادا کیا اس کا ایمان مکمل ہوگیا اور جس نے مکمل طور سے ادا نہیں کیا اس کا ایمان مکمل نہیں ہوا۔ اگر میں باحیات رہا تو میں انھیں تمھارے سامنے ایک ایک کرکے واضح کروں گا تاکہ تم ان پر عمل کرلو، اور اگر میں وفات پاگیاتو مجھے تم لوگوں کی صحبت کی بہت زیادہ خواہش بھی نہیں ہے۔[4] امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ایک مرتبہ ایمان کے بارے میں پوچھا گیا کہ اس کی حقیقت و اوصاف کے بارے میں بتائیں تو آپ نے فرمایا: ایمان چار ستونوں پر قائم ہے: (1) صبر (2) یقین (3) عدل (4) جہاد۔ اور صبر کی چار شاخیں ہیں: (1) شوق (2) خوف (3) زہد و تقویٰ (4) انتظار۔ جو شخص جنت کا مشتاق ہوا اس نے لذات دنیا کو فراموش کردیا، جو آتش دوزخ سے ڈرا اس نے محرمات سے دوری اختیار کی، جس نے دنیا میں زہد اختیار کیا مصائب اس پر آسان ہوگئیں اور جس شخص نے موت کا انتظار کیا اس نے کارخیر کی بجاآوری میں عجلت کی۔ یقین کی بھی چار شاخیں ہیں: (1) بصیرت عقل (2) فہم حکمت (3) عبرت و موعظت (4) طریقۂ اوّلین۔ جس شخص نے اپنی عقل میں بصیرت حاصل کی حکمت اس کے لیے ظاہر ہوگئی اور جس شخص کے لیے حکمت ظاہر ہوئی اس نے عبرت کو پہچان لیا اور جس نے عبرت کو پہچان لیا گویا وہ اولین کے زمرہ میں شامل ہوگیا۔ عدل کے بھی چار شعبے ہیں: (1) فہم کی گہرائی (2) علم کی گہرائی (3) روشن حکم (فیصلہ) (4) راسخ حلم اور |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |