نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امرِ حق کا ساتھ دیتے ہیں۔‘‘[1] خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دور میں ان اخلاق فاضلہ کا مالک بتایا ہے جب کہ آپ منصب رسالت سے نوازے نہیں گئے تھے او رنہ ہی اپنی امت کی اصلاح کا بوجھ اٹھایا تھا، لیکن جب نبوت مل گئی تو اس نے ان اخلاق فاضلہ کی عظمت و کمال کو چار چاند لگا دیے، پھر بھلا یہ کیوں کر ضروری نہیں تھا کہ آپ کا کرم و احسان دیگر انبیاء و خلائق انسانی کے کرم پر بھاری ہو، چنانچہ ایسا ہی ہوا، اس کے بے شمار واقعات و دلائل موجود ہیں۔[2] امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قرآنی اور تربیت نبوی سے بے حد متاثر ہوئے، واقعات شاہد ہیں کہ جود و کرم جیسی عادت طیبہ آپ کی عظیم شخصیت کی جڑوں میں پیوست تھی۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اصبغ بن نباتہ کی روایت بیان کی ہے کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: اے امیرالمومنین! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، اگر آپ میری ضرورت پوری کردیں گے تو میں اللہ کی حمد و ثنا اور آپ کا شکریہ ادا کروں گا اور اگر نہیں پوری کرتے تو اللہ کی حمد کروں گا اور آپ کو معذور سمجھوں گا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اپنی ضرورت زمین پر لکھو، میں تمھارے چہرہ پر بھیک مانگنے کے آثار دیکھناپسند نہیں کرتا، چنانچہ اس نے لکھا: میں محتاج ہوں، میری مدد کریں۔ علی رضی اللہ عنہ نے ایک جوڑا لانے کا حکم دیا،وہ لایا گیا آپ نے اسے اس آدمی کو دیا اور اس نے پہن لیا، پھر یہ اشعار سنائے: کَسَوْتَنِیْ حُلَّۃَ تَبَلَی مَحَاسِنُہَا فَسَوْفَ اَکْسُوْکَ مِنْ حُسْنِ الثَّنَا حُلَلاَ ’’آپ نے مجھے وہ جوڑا پہنایا ہے جس کی خوبیاں بوسیدہ ہوجائیں گی، لیکن میں جلد ہی آپ کو عمدہ تعریف کا جوڑا پہناؤں گا۔‘‘ اِنْ نِلْتُ حُسْنَ ثَنَائِیْ نِلْتُ مَکْرُمَۃً وَ لَسْتُ اَبْغِيْ بِمَا قَدْ قُلْتُہُ بَدَلَا ’’اگر میری مدح سرائی کا حق ادا ہوگیا تو یہ اعزاز کی بات ہوگی، حالانکہ میں اس مدح سرائی کا کوئی معاوضہ نہیں چاہتا۔‘‘ اِنَّ الثَّنَا لَیُحْیِیْ ذِکْرَ صَاحِبِہِ کَالْغَیْثِ یُحْیِیْ نِدَاہُ السَّہْلَ وَ الْجَبَلَا ’’کسی آدمی کی تعریف ہی اس کی یاد کو تازہ رکھتی ہے جس طرح کہ بارش کا پانی زرخیز اور پہاڑی زمینوں کو زندگی عطا کرتا ہے۔‘‘ لَا تَزْہَدِ الدَّہْرَ فِيْ خَیْرٍ تُوَاقِعُۃُ فَکُلُّ عَبْدٍ سَیُجْزِیْ بِالَّذِیْ عَمِلَا ’’پوری زندگی تم خیر سے کنارہ کش نہ ہونا، کیونکہ ہر انسان عنقریب اپنے عمل کا بدلہ پائے گا۔‘‘ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان اشعار سے متاثر ہو کر کچھ دینار لانے کا حکم دیا، چنانچہ سو (100) دینار لائے گئے، آپ نے وہ اس شخص کو دے دیے۔ اصبغ نے کہا: اے امیرالمومنین! ایک حلہ اور مزید سو دینار! آپ نے کہا: ہاں میں نے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |