خلافت کو موقوف و معطل رکھنا ان صحابہ سے ناممکن اور محال ہے، خلافت کے لیے ایسی شرط ہرگز جائز نہیں ہے، اس لیے کہ اس سے ایک واجب یعنی انعقاد خلافت ساقط ہوتی ہے، جس کے نتیجہ میں لازمی فساد کا ظہور یقینی ہوجاتا ہے۔[1] تیسرا جواب:…جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر عمر فاروق، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما اور چند دیگر انصار صحابہ کی بیعت سے اجماع حاصل ہوگیا تھا حالانکہ اس وقت علی، عثمان رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ وہاں موجود نہ تھے، بالکل اسی طرح علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سعد بن ابی وقاص، ابن عمر، اسامہ بن زید، عمار بن یاسر اور چند بدری صحابہ کی بیعت سے اجماع حاصل ہوگیا۔ جو چند لوگ اس بیعت کے وقت موجود نہ تھے یا موجود تھے لیکن بیعت نہ کی تو اس سے خلافت علی کے اجماع پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’واللہ! علی رضی اللہ عنہ کی بیعت، ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بیعت سے چنداں مختلف نہ تھی۔‘‘[2] چوتھا جواب:… معترض کا یہ دعویٰ کہ ’’قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی شرط پر علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کی گئی تھی۔‘‘ اصل مسئلہ سے خارج ہے، اس لیے کہ بیعت کی شرط میں یہ مطالبہ رکھنا ہی شرعاً درست نہیں ہے۔ بیعت تو حق کے مطابق حکومت و فیصلہ کرنے پر ہوتی ہے۔ جس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ قصاص کے طلب گار حاضر ہوں اور مدعی علیہ فریق کو بھی حاضر کیا جائے، پھر دعویٰ اور جواب دعویٰ پیش ہو، پھر طرفین کے دلائل سنے جائیں گواہ پیش ہوں اور فیصلہ مستحق کے حق میں صادر ہو۔[3] وہ روایات جن میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہما اور بعض دیگر صحابہ کرام نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے بیعت کرتے وقت یہ شرط لگائی تھی کہ ’’قاتلین عثمان پر حد قصاص نافذ کرنا ضروری ہے‘‘ تو ان کی سند میں ضعف کے ساتھ ساتھ متن میں بھی ائمہ فن کا کلام ہے۔[4] چنانچہ اس سلسلہ میں ابن العربی فرماتے ہیں: ’’اگریہ اعتراض کیا جائے کہ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی شرط پر علی رضی اللہ عنہ سے بیعت ہوئی تھی تو ہمارا جواب یہ ہے کہ بیعت کے لیے ایسی شرط لگانا ہی شرعاً درست نہیں ہے۔‘‘[5] پانچواں جواب:…سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کے معاملہ پر علی رضی اللہ عنہ سے قتال نہیں کیا، اور نہ ہی آپ کی امامت سے انکار کیا، بلکہ مخالفت اور جنگ کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی صواب دید و اجتہاد کے مطابق علی رضی اللہ عنہ سے اس مطالبہ پر بضد تھے کہ جو لوگ شہادت عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک ہوئے ہیں ان پر شرعی حد فوری طور سے نافذ کریں۔ حالانکہ آپ کا یہ اجتہاد غلط تھا، تاہم اجتہاد میں حسن نیت کی بنا پر آپ ایک اجر کے مستحق ہوں گے۔[6] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |