بعد چوتھی ایسی کوئی شخصیت نظر نہیں آرہی تھی جو مقام و مرتبہ، علم و تقویٰ اور دین میں علی رضی اللہ عنہ کے برابر ہو، اس لیے بیعت خلافت آپ پر ہی تمام ہوئی اور اگر یہ کارروائی انجام دینے میں جلدی نہ کی جاتی تو مدینہ میں موجود بلوائی اپنی خباثت کے باعث امت مسلمہ کے پردۂ اتحاد کو اس طرح چاک کر دیتے جسے دوبارہ جوڑنا مشکل ہوجاتا، لیکن مہاجرین و انصار نے عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا اور علی رضی اللہ عنہ کے لیے اس ذمہ داری کو فرض سمجھا اوربالآخرآپ نے بھی اسے تسلیم کرلیا۔‘‘ْ[1] 11: امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’عمر رضی اللہ عنہ کے بعد تمام صحابہ کرام عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہوگئے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَاء الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِیْ تَمَسَّکُوْا بِہَا وَعَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ وَاِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔))[2] ’’تم اپنے اوپر میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم کرلو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور داڑھوں کے ساتھ اسے جکڑ لو اور دین میں ایجاد کردہ نئی نئی باتوں سے خود کو بچاؤ، اس لیے کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہدایت یافتہ خلفائے راشدین میں سے آخری خلیفہ تھے، اہل سنت کے تمام علمائ، اتقیائ، حکام اور فوجی سربراہان حتی کہ ان کے عوام الناس بھی اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت کی ترتیب میں پہلے ابوبکر، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ عنہم ہیں ۔‘‘[3] 12: حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد شروع ذو الحجہ 35ھ میں علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت منعقد ہوئی، مہاجرین وانصار اور مدینہ کے تمام حاضرین نے بیعت کی، پھر اس بیعت سے اسلامی سلطنت کے تمام علاقوں کو آگاہ کیا گیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ اور اہل شام کے علاوہ سب آپ کے مطیع ہوگئے، پھر ان کے درمیان جو ہوا ہوا۔‘‘[4] بہرحال ناقلین اجماع کی مذکورہ عبارتوں کو نقل کرکے میں صرف یہ ثابت کرنا چاہتا ہوں کہ خلافت کے اس زمانہ میں اس بات پر اجماع ہوچکا تھا کہ شہادت عثمان کے بعد علی رضی اللہ عنہ ہی اس کے زیادہ مستحق ہیں اور ان کی خلافت صحیح ہے۔ اس لیے کہ اس وقت روئے زمین پر آپ سے زیادہ خلافت کا کوئی حق دار نظر نہیں آرہا تھا، پس یہ خلافت آپ کے شایان شان رہی، نیز مناسب وقت پر اور برمحل عمل میں آئی۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |