Maktaba Wahhabi

1091 - 1201
گا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ہمارے آقا علی بن حسین چلے گئے، پھر میں مولانا ابوجعفر محمد الباقر کے پاس گیا اور کہا: اے میرے مولا، میں نے آپ کے باپ سے ایک حدیث سنی ہے، وہ کہنے لگے: اے ثمالی وہ کون سی حدیث ہے، میں نے انھیں وہ حدیث سنائی، تو انھوں نے کہا: ہاں اے ثمالی ایسے ہی ہے۔ کیا اس سے زیادہ بھی سننا پسند کرو گے؟ تو میں نے کہا: ہاں! اے میرے مولا۔ آپ نے فرمایا: جس نے ہر روز صبح کے وقت ان دونوں پر لعنت بھیجی اس پر اس دن شام تک کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا اور جس نے شام کو ان دونوں پر ایک لعنت بھیجی تو پوری رات صبح ہونے تک اس پر کوئی گناہ نہیں لکھا جائے گا۔[1] اور ان کی ماثورہ دعاؤں کی کتب میں ایک مشہور دعا ہے جو ’’دعاء صنمی قریش‘‘ (قریش کے دو بتوں پر بددعا) کے نام سے معروف ہے۔ ان دو بتوں سے ابوبکر و عمر کو مراد لیتے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ پر ظلم اور جھوٹ باندھتے ہوئے اسے آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں، یہ بددعا ڈیڑھ صفحات سے زائد پر مشتمل ہے، اس میں ہے کہ ’’اے اللہ رحمت نازل فرما محمد اور آل محمد پر، اور لعنت نازل کر قریش کے دونوں بتوں، اس کے دونوں جبت، دونوں طاغوت اور دونوں بڑے جھوٹوں اور پھر ان دونوں کی دونوں بیٹیوں پر کہ جنھوں نے تیرے حکم کی خلاف ورزی کی، تیری وحی سے انکار کیا، تیرے انعام کی ناشکری کی، تیرے رسول کی بات نہ مانی، تیرے دین کو بدل دیا اور تیری کتاب میں تحریف کی۔‘‘ اور دعا کا اختتام اس طرح ہوتا ہے: ’’اے اللہ ظاہر وباطن ہرطرح سے اور ہمیشہ ہمیش کے لیے ان دونوں پر لعنت نازل کر، اتنی لعنت کہ جو شمار سے بالاتر ہو اور جس کا سلسلہ منقطع نہ ہو، ایسی لعنت جو اس کے اوّل سے شروع ہو اور آخر تک کسی کو نہ چھوڑے، یعنی خود ان دونوں پر، ان کے مددگاروں پر، ان کے معتقدین و قرابت داروں پر، ان کے فرماں برداروں پر، ان کی طرف میلان رکھنے والوں پر، ان کے دلائل کے سہارے ابھرنے والوں پر، ان کی باتوں کی پیروی کرنے والوں پر اور ان کے احکامات کی تصدیق کرنے والوں پر، (اور چار مرتبہ کہو) اے اللہ انھیں ایسا سخت عذاب دے جس سے اہل جہنم بھی پناہ مانگتے ہیں، قبول کر اے رب العالمین، قبول فرما۔‘‘[2] یہ دعا روافض شیعہ کے نزدیک پسندیدہ دعاؤں میں سے ہے، یہاں تک کہ اس کی فضیلت کو ابن عباس کی طرف منسوب کرتے ہوئے روایت کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: علی اپنی نماز میں اسے دعائے قنوت کے طور سے پڑھتے تھے اور اس دعا کو پڑھنے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی شخص غزوۂ بدر، احد اور حُنین میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمن کے مقابلہ میں لاکھوں تیر برسا رہا ہو۔[3] اس دعا کی اہمیت کے پیش نظر ہی علمائے شیعہ نے اس پر بہت توجہ دی یہاں تک کہ آغابزرگ الطہرانی نے
Flag Counter