Maktaba Wahhabi

1052 - 1201
لیے کھانے کی ضرورت ہوئی تو میں کافی پریشان اور فکر مند ہوا۔ یہاں تک کہ میں نے ان کا کھانا جمع کرلیا، تب میری جان میں جان آئی، اللہ کی لعنت ہو اُن لوگوں پر، اللہ ان کے اس قول سے پاک ہے۔[1] لیکن آپ کیا کریں گے، یہ روایات تو ایسے ہی ہیں جیسے سیاہ رنگ بیل کے جسم میں ایک سفید بال، اور تقیہ میں ہر اس نص کی گنجائش ہے جو شیعہ مشائخ کے سینہ کو تنگ کرتی ہو اور انھیں الجھن میں ڈالتی ہو، ہماری یہ بات مبنی برحقیقت ہے، اگر آپ کو اس کی مثال چاہیے تو ابوعبداللہ کا جو قول ابھی میں نے نقل کیا ہے اور اسی طرح اپنے بارے میں علم غیب کی بات سن کر ابوعبداللہ نے جو فرمایا اور تردید میں یہ مثال دے کہ ان کی لونڈی آپ کے گھر میں چھپ گئی اور وہ نہیں جان سکتے کہ کہاں ہے، یہ سب کچھ ہونے کے باوجود یہ کیسے کہا جاسکتاہے کہ آپ کو ’’ماکان‘‘ اور ’’ما یکون‘‘ کا علم تھا، لیکن پھر بھی ان کے مذکورہ قول پر ‘‘’’الکافی کے شارح کی تعلیق آپ ملاحظہ فرمائیں: آپ نے اپنے متعلق علم غیب کی باتیں سن کر حیرت و افسوس کا مظاہرہ اس لیے کیا کہ مبادا جاہل لوگ آپ کو معبود نہ بنالیں۔ یا آپ وہاں پر موجود ایسے لوگوں کے وہم کا خاتمہ کرنا چاہتے تھے جو آپ کی فضیلت کے منکر تھے۔ مقصد یہ تھا کہ آپ کی ذات اس سے محفوظ رہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ آپ ’’ما کان‘‘ اور ’’مایکون‘‘ کے عالم تھے اور یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اپنی لونڈی کے چھپنے کی جگہ کو نہ جانتے؟ لیکن اگر آپ کہیں کہ پھر تو انھوں نے غلط بیانی سے کام لیا۔ تو میں کہوں گا کہ اگر ’’توریہ‘‘ کا مقصد نہ ہوتا تو جھوٹ ہوتا، دراصل یہاں آپ نے توریہ سے کام لیا، پس آپ کے قول ’’ماعلمت‘‘ سے یہ مستنبط کرنا کہ آپ اپنے کلی علم کی نفی کر رہے تھے صحیح نہیں ہے۔[2] اس راویت کی توجیہ اور امام کے لیے ’’ماکان‘‘ و ’’ما یکون‘‘ کا علم ثابت کرنے کے لیے یہ پُرتکلف اور تعجب خیز انداز دیکھئے کہ اپنے امام کی طرف جھوٹ کی نسبت کا ارتکاب کربیٹھے اور اپنے مذہب کی اہم ترین بنیاد یعنی ’’عصمت ائمہ‘ کو ڈھا دیا۔[3] رہے ان کے دوسرے شیخ شعرانی کہ جنھیں یہ تعلیق پسند نہ آئی اور نہایت مختصر راستہ سے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے مذکورہ شرح پر یہ تعلیق لکھی کہ یہ روایت ہی جھوٹی ہے۔ بہرحال یہ لوگ اہل بیت کے بارے میں اسی طرح کے غلط پروپیگنڈے کرتے ہیں اور اگر ان ائمہ اہل بیت نے ان جھوٹوں کے جھوٹ کو بے نقاب کردیا اور جمہور کے سامنے ان کی غلط بیانی اور کارستانی کا پول کھول دیا، تو ان پروپیگنڈائیوں نے اس انکار و مذمت کو تقیہ پر محمول کردیا، اس طرح غلو کے جوار، دائرۂ تشیع کی بقائ، حق کی تردید، اور اہل سنت کی شان میں گستاخی کو زندہ رکھنے کے لیے ’’تقیہ‘‘ کا عقیدہ غلو پرست شیعہ حضرات کے ہاتھوں ایک ہتھیار بن گیا۔[4] زرارہ بن اعین نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جعفر بن محمد کو معلوم ہے کہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی؟ لیکن جب جعفر کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے سختی سے اس
Flag Counter