Maktaba Wahhabi

105 - 1201
اس کی نسل ایک حقیر پانی کے خلاصہ سے بنائی۔پھر اسے درست کیا اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی اور تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنائے۔ تم بہت کم شکر کرتے ہو۔‘‘ آپ نے اس حقیقت کو اچھی طرح پہچانا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ۔ اچھی شکل و صورت اور معتدل قد و قامت کے ذریعہ سے شرف بخشا اور اسے عقل و تمیز اور قوت گویائی عطا فرمائی۔ آسمان و زمین کی تمام اشیاء کو اس کے لیے مسخر فرمایا اور بہت سی مخلوقات پر اس کو فضیلت بخشی اور انبیاء و رسل کو مبعوث کرکے اس کو عز و شرف بخشا۔ آپ کے سامنے یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ انسان کے تکریم الٰہی کے مظاہر میں سے بہترین مظہر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی محبت و رضا کا اہل قرار دیا اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے حاصل ہوسکتی ہے جنھوں نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تاکہ دنیا میں پاکیزہ زندگی گزاریں اور آخرت میں دائمی نعمت سے سرفراز ہوں۔ ارشاد الٰہی ہے: مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً ۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٩٧﴾ (النحل:97) ’’جو بھی نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہو تو یقینا ہم اسے ضرور زندگی بخشیں گے، پاکیزہ زندگی اور یقینا ہم انھیں ان کا اجر ضرور بدلہ میں دیں گے، ان بہترین اعمال کے مطابق جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے قرآن کا بغور مطالعہ کرکے انسان اور شیطان کے درمیان جاری جنگ کی حقیقت کو پہچانا اور بخوبی آگاہ ہوئے کہ شیطان انسان پر اس کے آگے پیچھے ، دائیں اور بائیں ہر طرف سے حملہ آور ہوتا ہے، اسے گناہ کرنے پر ابھارتا ہے اور اس کی خفتہ شہوات کو ہوا دیتا ہے، اسی وجہ سے آپ اپنے دشمن کو شکست دینے کے لیے اللہ سے ہمیشہ مدد مانگتے تھے اور اپنی پوری زندگی اس معرکہ میں کامیاب رہے، قرآن کریم میں آدم اورابلیس کا واقعہ پڑھا اور اس حقیقت تک پہنچے کہ آدم علیہ السلام ہی سے بنی نوع انسان کا وجود ہوا ہے اور اسلام کی روح یہ ہے کہ اللہ کی مطلق اطاعت کی جائے، نیز یہ کہ انسان سے غلطی و گناہ واقع ہوسکتے ہیں۔ آدم علیہ السلام کی لغزش سے آپ نے یہ بھی سیکھا کہ مسلمان کو اللہ کی ذات پر اعتماد اور کامل توکل کرنا چاہیے اوریہ کہ مومن کی زندگی میں توبہ و استغفار کی کافی اہمیت ہے، اسے حسد اور تکبر و غرور سے بچانا ضروری ہے اور ہر چیز پر اللہ کی رضا کو مقدم کرنا لازم ہے، نیز یہ کہ اپنے رفقاء و دینی بھائیوں کے ساتھ بہتر انداز میں گفتگو کرنا چاہیے۔ ارشاد الٰہی ہے: وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا ﴿٥٣﴾ (الاسرائ:53) ’’اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔ بے شک شیطان ہمیشہ سے انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
Flag Counter