Maktaba Wahhabi

104 - 263
کردیں۔ ’’ نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا‘‘(ہم اس سے بہتریا اس کی مثل آیت لے آتے ہیں)۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور قتادہ سے روایت ہے کہ’’ بِخَيْرٍ مِنْهَا‘‘ کا معنی ہے ہم اس آیت سے بہتر آیت لے آئیں گے جو زیادہ سہل اور زیادہ آسان ہو گی‘ جیسے پہلے یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب کفار سے قتال ہو تو دس کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان اپنی پیٹھ نہ پھیرے‘ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل فرمائی:’’ الْآنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا فَإِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ مِائَةٌ صَابِرَةٌ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ‘‘(کہ اب اللہ نے تم سے تخفیف فرما دی اور اس کو معلوم ہے کہ تم میں ناتوانی ہے‘ سو اگر تم میں سے سو آدمی صابر ہوئے تو وہ دو سو پر غالب آ جائیں گے)۔ نیز فرمایا’’یا اس کی مثل لے آئیں گے‘‘ جیسے پہلے بیت القدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھ رحمہ اللہ پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دے دیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ خیر لکم کا معنی ہے کہ دوسرے حکم میں تمہارے لیے تخفیف ہوگی یا وہ دوسرا حکم تمہاری مصلحت کی وجہ سے ہوگا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ وہ تلاوت میں بہت ہے‘ کیونکہ یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ بعض قرآن دوسرے بعض قرآن سے بہتر ہے کیونکہ پورا قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور معجز ہے۔[1][2] قرآن مجید کی آیات منسوخہ کا بیان: سورۂ بقرۃ کی مذکورہ آیت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اُس آیت کا تعلق تمام تر ادیانِ سابقہ سے ہے اور اس میں جس نسخ کا حوالہ ہے اس کی ضرورت اور اس کی حکمت اس قدر واضح ہے کہ کسی انصاف پسند کے لیے اس سے انکار کی گنجائش نہیں ہے۔ اور سورۃ البقرہ کے علاوہ سورۃ النحل کی آیت نمبر 101 سے اور کئی احادیث سے نسخ کے وقوع کا استدلال ملتا ہے۔رہا یہ سوال کہ اسلامی شریعت میں بھی نسخ ہے یا نہیں تو اس بارے میں ہمارے ہاں تین گروہ ہیں۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جو نہ صرف نسخ کے قائل ہیں بلکہ اس کو بہت زیادہ وسعت دیتے ہیں‘ دوسرا گروہ نسخ کا یک قلم منکر ہے اور تیسرا گروہ اس کا قائل تو ہے لیکن اس کو صرف چند احکامات تک محدود مانتا ہے۔[3] جمہور فقہاء اسلام کے نزدیک قرآن مجید کی منسوخ آیات: 1۔ ’’ كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ...‘‘[4]جب تم میں سے کسی کو موت آئے‘ اگر اس نے مال چھوڑا ہو تو
Flag Counter