اور قرآن مجید میں اس کی دلیل یہ ہے: وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ (الحجرات: 11) ’’اور نہ اپنے لوگوں پر عیب لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے ناموں کے ساتھ پکارو۔‘‘ پس اپنے نفسوں کو عیب نہ لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے جیسے مومن بھائیوں کو عیب نہ لگاؤ ، گویا دینی اخوت کو نسبی اخوت کے قائم مقام ٹھہرایا، اسی طرح اگر دور کی نسبی قرابت پر نفس کا اطلاق ہوسکتاہے تو قریب کی قرابت پر بدرجہ اولیٰ اطلاق ہوگا۔شاعر کہتا ہے کَانَ یَوْمُ قَرٰی إِنَّمَا نَقْتُلُ إِیَّانَا ’’قری کی جنگ میں گویا ہم اپنے آپ کو قتل کر رہے تھے ‘‘ یعنی گویا اپنے بھائیوں کو قتل کرکے ہم اپنے نفسوں کو قتل کر رہے تھے، اس شعر میں شاعر نے اپنے اقرباء کے نفوس کو اپنا نفس قرار دیا ہے۔ رہا سورۂ نور میں اللہ کا یہ فرمان کہ فَإِذَا دَخَلْتُم بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ (النور:61) تو اس میں ’’انفس‘‘ کو اسی اصول پر ثابت مانا جائے، اس لیے کہ تفسیر میں اس کا معنی ہے کہ تم میں سے بعض بعض کو سلام کرے، کیونکہ کسی انسان کا اپنی ذات سے سلام کرنا محال ہے اور یہ بات اس لیے جائز ہے کہ تمام مسلمانوں کے نفوس، نفس واحد کے حکم میں ہیں، کیونکہ سب ایک دین سے مربوط ہیں اور چونکہ خطاب شریعت کی زبان میں ہے اس لیے کوئی مسلم فرد واحد جب اپنے کسی بھائی کو سلام کرتا ہے تو گویا وہ اپنے اوپر بھی سلامتی کی دعا کرتا ہے، کیونکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں، دونوں ایک ہیں۔[1] اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس آیت سے علی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مساوی قرار دینے کی شیعہ حضرات کی دلیل اور دعویٰ دونوں ہی صحیح نہیں۔ "نفس" کا لفظ لغت عرب میں جب دور کے نسب کے لیے بولا جاسکتا ہے تو قریبی نسب و رشتہ پر بدرجہ اولیٰ بولا جاسکتا ہے، چنانچہ یہ آیت کریمہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نامزدگی خلافت و امامت کے لیے نہ قریب سے کوئی دلیل بن سکتی ہے اور نہ بعید سے۔[2] ج: کسی انسان کا اپنی ذات اور اہل وعیال کو لے کر دعوت مباہلہ دینا -جب کہ ان کی طرف انسان کی طبعی طور سے جو ہمدردی ہوتی ہے وہ دوسروں کے تئیں نہیں ہوتی- دراصل اس کا محرّک ایسے احساس و شعور اور صداقت کا اقرار ہوتا ہے جو دعوت مباہلہ دینے والے کی سچائی کی طرف غماز ہوتا ہے۔[3]چنانچہ اسی پس منظر میں آپ سوچیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عزیز ترین اور قریبی افراد کو لے کر دعوت مباہلہ دے رہے ہیں جو کہ آپ کی نبوت کی صداقت کی واضح دلیل ہے اور یہی وجہ تھی کہ جب نجران کے نصاریٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |