Maktaba Wahhabi

962 - 1201
ڈھانپ دیا، پھر فرمایا: ((اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ اَہْلِ بَیْتِیْ فَاذْہَبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَ طَہِّرْہُمْ تَطْہِیْرًا۔))ام سلمہ کہنے لگیں: اے اللہ کے نبی! اور میں بھی انھیں کے ساتھ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اَنْتِ عَلٰی مَکَانِکِ وَ اَنْتِ عَلٰی خَیْرٍ۔)) ’’تمھارا اپنا مقام ہے تم بھی خیر پر ہو۔‘‘[1] مزید براں ایک بہت ہی اہم روایت ہے جو بسند حسن مروی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جب چادر سے یہ لوگ نکل گئے تب آپ رضی اللہ عنہا بھی چادر میں داخل ہوئیں اور شاید اس کی صحت کی سب سے بہتر توجیہ یہی ہے کہ اس چادر میں علی بن ابی طالب کے ہوتے ہوئے ام سلمہ کا داخل ہونا درست نہ تھا، اس لیے جب وہ لوگ چادر سے نکل گئے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی چادر میں داخل کردیا، چنانچہ شہر رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی تفصیل یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو اہل عراق پر لعنت بھیجتے ہوئے سنا، جب کہ ان کے پاس حسین بن علی کی شہادت کی خبر پہنچی، آپ کہہ رہی تھیں: انھوں نے اسے قتل کردیا اللہ انھیں قتل کرے، انھوں نے اسے دھوکا دیا، رسوا کیا، ان پر اللہ کی لعنت نازل ہو۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کے پاس فاطمہ رضی اللہ عنہا ایک ہنڈیا میں دودھ اور آٹے کا بنا ہوا ناشتہ لے کرآئیں، اسے پلیٹ میں نکال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ((اَیْنَ ابْنُ عَمُّکِ)) تمھارے چچا زاد بھائی کہاں ہیں۔ انھوں نے کہا: گھر میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ((اِذْہَبِیْ فَادْعِیْہِ وَ اُتِنِیْ بَاِبْنَیْہِ۔))جاؤ انھیں بلاؤ اور ان کے دونوں بیٹوں کو بھی میرے پاس لاؤ۔ راوی کا بیان ہے کہ اتنے میں آپ رضی اللہ عنہا اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہاتھوں کی انگلیاں پکڑا کر لے آئیں، اور علی رضی اللہ عنہ ان دونوں کے پیچھے چل رہے تھے، اس طرح یہ سب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نواسوں کو اپنی گود میں بٹھا لیا، اور علی رضی اللہ عنہ آپ کے دائیں طرف بیٹھ گئے اور فاطمہ بائیں طرف بیٹھ گئیں۔ ام سلمہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خیبری چادر کھینچی جسے ہم لوگ مدینہ میں سونے کے لیے چٹائی کے طور سے استعمال کرتے تھے، آپ نے وہ چادر چاروں کونوں سے سمیٹ کر بائیں ہاتھ میں پکڑ لیا اور دائیں ہاتھ سے اپنے رب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ دعا کیا: ((اَللّٰہُمَّ اَہْلِ بَیْتِیْ اذْہَبْ عَنْہُمُ الرِّجْسَ وَ طَہِّرْہُمْ تَطْہِیْرًا۔)) ’’اے اللہ! میرے اہل بیت ہیں ان سے گندگی کو دور فرما اور خوب پاک و صاف کردے۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا میں آپ کے اہل سے نہیں ہوں؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’بلیٰ‘‘ کیوں نہیں ہو، تم بھی چادر میں داخل ہو جاؤ۔چنانچہ جب آپ اپنے چچازاد بھائی علی، ان کے دونوں بیٹوں اور اپنی بیٹی فاطمہ کے لیے دعا کرکے فارغ ہوئے تو میں بھی چادر میں داخل ہوئی۔[2] یہ روایت صاف طور سے دلالت کرتی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ کو اپنے اہل بیت میں سے
Flag Counter