مطابق اصلاحی کوششیں بار آور ثابت ہوں، معاشرہ کی اصلاح و تعمیر میں علمائے دین کا ہر دور میں قائدانہ کردار رہا ہے اور حکام ہوں یا رعایا سب کو ان کی کاوشوں کا اعتراف و احترام کرنا پڑا ہے۔ لادینی سیاست اسی وقت آگے بڑھی جب علمائے دین نے امت کی قیادت و رہنمائی کرنے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، تاریخ شاہد ہے کہ عوام نے کبھی کسی کو اپنے علماء کا متبادل نہیں سمجھا، اور نہ اسے پسند کیا، حکومتیں بدلتی رہیں لیکن امت مسلمہ مسلسل اپنے علماء سے عقیدت مند رہی، ان سے محبت کی، ان سے لگی لپٹی رہی اور جب بھی کوئی نازک وقت آیا تو اللہ واحد کی ذات کے بعد وہ انھیں کی طرف پلٹی، اس لیے کہ اسے علماء کا مقام معلوم ہے، اس کا ہر فرد جانتا ہے کہ ان میں حرکت و انقلاب کی صلاحیت موجود ہے اور وہ ہر مشکل اور ہر چیلنج کو قبول کرسکتے ہیں۔ اسی طرح حکام کو محبت کی بنا پر یا ڈر کی وجہ سے بہرحال علماء کی قدر و منزلت کا اعتراف رہا ہے۔ علمائے دین کبھی کسی میدان میں پیچھے نہیں رہے، بلکہ مجاہدین اور مسلم جنگجوؤں میں پیش پیش رہے اور بھلائی کا حکم دینے والوں اور برائی سے روکنے والوں میں بھی سرفہرست رہے، معاً اپنی قوم کی خوشیوں اور غم میں بھی شریک رہے، اس راستہ میں انھیں مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑا، لیکن سب کچھ برداشت کیا اور اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی، اس لیے کہ وہ وارثین انبیاء ہونے کا معنی اچھی طرح جانتے تھے۔[1] علماء ہی اسلام کے فقہا ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی باتوں پر پوری مخلوق میں فتووں کا دار و مدار ہے، انھیں کو احکام مستنبط کرنے میں اختصاص اور حلال و حرام کے قواعد متعین کرنے میں عبور حاصل ہوتا ہے۔[2] یہ علماء ہی ائمہ دین ہیں انھوں نے بڑی مشقت اور صبر و یقین کے بعد ہی اس بلند مقام کو حاصل کیا ہے: وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴿٢٤﴾ (السجدۃ: 24) ’’اور ہم نے ان میں سے کئی پیشوا بنائے، جو ہمارے حکم سے ہدایت دیتے تھے، جب انھوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین کیا کرتے تھے۔‘‘ علماء ہی ورثاء انبیاء ہیں، انھوں نے ان سے علم وراثت میں پایا ہے اور اسے اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا ہے، اسے اپنے اعمال میں کر دکھاتے ہیں اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتے ہیں۔ علماء ہی اس امت کے وہ منتخب گروہ ہیں جنھوں نے اللہ کے دین کو سیکھنے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا ہے۔پھر دعوت کے کام میں لگ گئے ہیں اور انداز و تبلیغ کی مہم پر گامزن ہیں، لہٰذا ان لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کے بیچ میں رہیں اور انبیاء کے ورثاء کی طرح اپنی ذمہ داری نبھائیں، گوشہ گیری سے دست بردار ہوں، لوگوں کی مشکلات اور نج و غم میں شریک ہوں، فقط انذار و تبلیغ پر اکتفا نہ کریں بلکہ لوگوں کی تربیت، تہذیب اور رہنمائی کے لیے کمربستہ ہوں، ان کے ساتھ اکھڑپن کی زندگی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |