Maktaba Wahhabi

876 - 1201
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾ (المائدۃ: 38) ’’اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی جزا کے لیے جو ان دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ شراب نوشی کے بارے میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عبداللہ نامی ایک شخص تھا وہ ’’حمار‘‘ (گدھا) کے لقب سے پکارا جاتا تھا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنساتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے شراب پینے پر مارا تھا، اتفاق سے اسے ایک دن پھر لایا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مارنے کا حکم دیا اور اسے پھر مارا گیا، حاضرین میں سے ایک صاحب نے کہا: اللہ اس پر لعنت کرے، کتنی مرتبہ لایا جاچکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تَلْعَنُوْہُ فَوَ اللّٰہِ مَا عَلِمْتُ اَنَّہُ یُحِبُّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ۔)) [1] ’’اس پر لعنت نہ کرو، واللہ میں نے اس سے متعلق یہی جانا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ پس اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوش پر کوڑے لگانے کا حکم دیا، اسے قتل نہیں کیا اور قتل تو دُور کی بات ہے اسے ملعون قرار دینے سے بھی منع فرمایا اور اس کے حق میں گواہی دی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والا ہے، باوجودیہ کہ اس شخص سے شراب نوشی کا یہ جرم متعدد بار ہوچکا تھا، بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اس پر، نہ چور پر، اور نہ ہی زانی پر کفر کا حکم لگایا اور نہ ہی ان کے اور مومنوں کے درمیان بائیکاٹ کا حکم دیا، بلکہ ان سب کے لیے بخشش کی دعا کرتے رہے اور سخت سست کہنے والوں سے کہتے رہے کہ اپنے بھائی کے خلاف شیطان کے معاون نہ بنو۔[2] صحابہ و تابعین کی پوری جماعت بھی اسی بات کی قائل ہے، ان کا اس پر اجماع ہے ان میں دو ایک کے اختلاف رائے کا کوئی معنی نہیں…یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ اگر گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہوجاتا ہے تو اس کے اور اس کی مومنہ بیوی کے درمیان جدائی ہو جانا چاہیے، ایسے ہی اسے نہ کسی مسلمان کا اور نہ کسی مسلمان کو اس کا وارث بننا چاہیے، لیکن ایسا کچھ نہ ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معصیت کے مرتکب اور ان کی بیوی کے درمیان کوئی جدائی نہیں ڈالی اور نہ ہی ان میں سے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی میراث سے محروم کیا اور یہی کچھ صحابہ اور تابعین نے بھی کیا، لہٰذا یقینی طور سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر نہیں ہوتا۔[3] ب: اللہ تعالیٰ گناہ کبیرہ کے مرتکبین کو مومن قرار دیتا ہے: ارشاد الٰہی ہے:
Flag Counter