Maktaba Wahhabi

874 - 1201
’’کیوں نہیں! جس نے بڑی برائی کمائی اور اسے اس کے گناہ نے گھیر لیا تو وہی لوگ آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ سے استدلال کرتے ہوئے وہ برے کام کرنے والوں پر ہمیشہ کے لیے جہنمی کا حکم لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس شخص کی موت گناہ پر ہوگی اس کے لیے رحمت الٰہی کی توقع فضول ہے۔[1] گویا ان کا گمان یہ ہے کہ جب نافرمانیاں انسان کو گھیر لیتی ہیں تو پھر وہاں کسی نیکی کی مقبولیت لیے کوئی گنجائش نہیں رہتی، حتیٰ کہ وہ نافرمانیاں اس شخص کے ایمان کو بھی ہڑپ کرجاتی ہیں۔ یہ تو ہے خوارج کی وجہ ٔاستدلال، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، اور خود یہی آیت ان کے اس عقیدہ کی تردید کرتی ہے، بایں طور کہ زیادہ سے زیادہ آیت کریمہ کا مفاد یہ ہے کہ جس شخص کو نافرمانیاں گھیر لیں وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا، لیکن کیا شرعی نقطہ نظر سے کفر اور شرک کے علاوہ بھی کوئی ایسی نافرمانی ہے جو انسان کوہر طرف سے گھیر لے، اس کے عمل کو یکسر برباد کردے اور وہ اس کے جرم میں ہمیشہ کے لیے جہنم میں جائے؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ پس کفر اور شرک ہی خلود فی النار کا سبب بن سکتے ہیں، تمام گناہ نہیں۔ ہماری بات کی تائید اس آیت کریمہ کے شان نزول سے بھی ہوتی ہے، کہ یہ آیت کریمہ یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اور اس کے راستہ سے بھٹک گئے۔ اسی طرح فقط ارتکاب گناہ کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانے کا سبب نہیں بتایا، بلکہ اس کے لیے لازمہ ذکر کردیا کہ وہ گناہ ایسا ہو جو گناہ گار کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہو اور یہ گناہ بقول حبرالامۃ و رئیس المفسرین عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، شرک ہے۔ نیز آپ سے اس کا یہ مفہوم منقول ہے کہ جس نے کفر کیا اور اس طرح لت پت ہوا کہ چاروں طرف سے اس میں گھر گیا تو اس کی کوئی نیکی قابل قبول نہیں، پس یہ بات سنت متواترہ سے ثابت شدہ اس حقیقت کی زیادہ موافقت میں ہے کہ موحدین گناہ گار جہنم سے نکال لیے جائیں گے۔[2] مزید برآں یہ آیت کریمہ نحوی اعتبار سے بھی قابل غور ہے، چنانچہ اس آیت میں ’’سئیۃ‘‘ کا لفظ نکرہ واقع ہے، جو کہ ہر قسم کے گناہ کو شامل ہے، علامہ عبدالرحمن السعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لیکن یہاں شرک مراد ہے کیونکہ اللہ نے آگے فرمایا ہے: وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ یعنی گناہ گار کو اس کی نافرمانیاں گھیرے ہوئے ہوں، اسے بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو، اور شرک کے علاوہ کسی دوسری نافرمانی اور گناہ میں یہ بات نہیں پائی جاتی، کیونکہ جس کے پاس ایمان ہوگا اس کی نافرمانیاں اسے گھیر نہیں سکتیں، لہٰذا مشرکین ہی ہمیشہ کے لیے جہنمی ہیں۔ خوارج نے اس آیت کریمہ کو مرتکبین گناہ کی تکفیر کے لیے دلیل بنایا تھا، لیکن جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں یہ آیت ان کے خلاف ثابت ہوئی، کیونکہ ’’خطیئۃ‘‘ سے شرک مراد ہے۔ یہی حالت ہر جھوٹے دعوے دار کی ہے جو اپنے باطل عقیدہ کی تائید کے لیے کسی آیت یا حدیث کا سہارالیتا ہے، لہٰذا ہمیشہ خبردار رہنے کی ضرورت ہے کہ
Flag Counter