Maktaba Wahhabi

848 - 1201
اعلان کرتے ہوئے کہا: جب تک تم ہمارے ساتھ ہو ہم پر تمھارے تین حقوق ہیں: ٭ ہم تمھیں اپنی مساجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روکیں گے تاوقتیکہ تم ان میں اللہ کا ذکر کرتے رہو۔ ٭ ہم تمھیں مال غنیمت حاصل کرنے سے منع نہیں کریں گے تاوقتیکہ ہمارے ساتھ مل کر لڑتے رہو۔ ٭ ہم تم سے اس وقت تک نہیں لڑیں گے جب تک تم ہم سے لڑائی شروع نہ کردو۔[1] اس طرح امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے انھیں مذکورہ تین حقوق عطا کیے تاوقتیکہ وہ خلیفہ سے قتال نہ کریں، یا عام مسلمانوں کے خلاف خروج نہ کریں، اس کے ساتھ ساتھ اسلامی عقیدہ کے دائرہ میں انھیں ان کے مخصوص افکار و نظریات پر باقی رہنے دیا، انھیں اسلام سے خارج نہ گردانا بلکہ اختلاف کرنے کا حق دیا، لیکن ایسا نہیں کہ یہ اختلاف گروہ بندی اور ہتھیار اٹھانے کا سبب ہو۔ نہ ہی آپ نے انھیں پس زنداں دھکیلا، نہ ان پر جاسوس مسلط کیے اور نہ ہی ان کی آزادیوں کو پابند سلاسل کیا، بلکہ ان کے اور ان کے دھوکہ میں آئے ہوئے لوگوں کے سامنے اتمام حجت اور اظہار حق کے لیے حرص کا مظاہرہ کیا، آپ نے اپنے مؤذن کو حکم دیا کہ قراء (حفاظ) کو اکٹھا کرو، صرف حافظ قرآن ہی میرے پاس آئیں، چنانچہ اس قدر حفاظ قرآن جمع ہوگئے کہ منز ل ان سے کھچا کچ بھر گئی، آپ نے قرآن منگوایا اور اسی کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہتے جاتے: اے قرآن! لوگوں کو بتا دے، آپ کو ایسا کرتے دیکھ کر لوگ کہنے لگے: اے امیر المومنین! آپ اس سے کیا کہہ رہے ہیں، یہ تو ورق میں لکھی ہوئی چند تحریریں ہیں، ہم اس کا جتنا حصہ رکھتے ہیں اسے پڑھ سکتے ہیں، آپ کا مقصد کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: تمھارے یہ ساتھی جو الگ ہوگئے ہیں کہتے ہیں کہ ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی کتاب ’’حکم‘‘ ہے۔ (اس لیے میں قرآن سے جواب دینے کو کہہ رہا ہوں) جب اللہ تعالیٰ بیوی اور خاوند کے بارے میں اپنی کتاب میں کہتا ہے: وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ (النساء : 35) ’’اور اگر ان دونوں کے درمیان مخالفت سے ڈرو تو ایک منصف مرد کے گھر والوں سے اور ایک منصف عورت کے گھر والوں سے مقرر کرو، اگر وہ دونوں اصلاح چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا۔ ‘‘ تو امت محمدیہ کا خون اور تقدس ایک مرد اور عورت کے بالمقابل کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کو مجھ پر اعتراض ہے کہ میں نے معاویہ سے معاہدہ کرلیا اور ’’امیرالمومنین‘‘ نہ لکھ کر فقط علی بن ابی طالب لکھنے پر راضی ہوگیا۔ حالانکہ میرے پاس اس کی شہادت موجود ہے، جس وقت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں قریش کے ساتھ صلح کا معاہدہ کر رہے تھے، ہم آپ کے ساتھ تھے، بالکل معاہدہ تحریر کیے جانے کے وقت سہیل بن عمرو (قریش کا ایلچی)
Flag Counter