Maktaba Wahhabi

794 - 1201
((اِبَنَا الْعَاصِ مُؤْمِنَانِ عَمْروٌ وَ ہِشَامٌ۔))[1] ’’عاص کے دونوں بیٹے یعنی عمرو اور ہشام مومن ہیں۔‘‘ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ مدینہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے لوگ یکایک گھبرا گئے، پھر لوگ منتشر ہوگئے، میں نے سالم کو دیکھا کہ انھوں نے تلوار سونتی اور مسجد میں بیٹھ گئے، ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مجھے اور سالم کو دیکھا تو لوگوں کے پاس گئے اور کہا: (( أَ یُّہَا النَّاسُ أَ لَا مَفْزَعُکُمْ إِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہِ، أَلَا فَعَلْتُمْ کَمَا فَعَلَ ہَذَانِ الرَّجُلَانِ الْمُؤْمِنَانِ۔))[2] ’’اے لوگو! کیا میں تمھیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف نہ ابھاروں؟ تم لوگوں نے ان دونوں مومن آدمیوں کی طرح کیوں نہ کیا؟‘‘ دوسروں پر ترجیح اور قریش کے نیکوکاروں میں سے ہونے کي شہادت: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی جنگ میں مجھ پر اور خالد پر کسی کو ترجیح نہ دی۔[3] اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو قریش کا مرد صالح قرار دیا، چنانچہ ابوملکیہ کو فرماتے ہوئے سنا: (( إِنَّ عَمْرَو بْنَ الْعَاص مِنْ صَالِحِيْ قُرَیْشٍ۔)) [4] ’’عمرو بن عاص قریش کے مرد صالح ہیں۔ ‘‘ اس حدیث سے اگر ایک طرف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا مقام نمایاں ہوتا ہے تو دوسری طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مردم شناسی بھی اجاگر ہوتی ہے۔ آپ کے حق میں رسول اللّٰہ صلي الله عليه وسلم کي دعا: زہیر بن قیس بلوی اپنے چچا علقمہ بن رمثہ بلوی سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن عاص کو بحرین بھیجا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آگئی، پھر آپ بیدار ہوئے تو فرمایا: ((رَحِمَ اللّٰہُ عَمْرًوا)) اللہ تعالیٰ عمرو پر رحم کرے، پھر ہم آپس میں بات کرنے لگے کہ کون سے عمرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر اونگھ آگئی اور پھر بیدار ہوئے تو فرمایا: ((رَحِمَ اللّٰہُ عَمْرًوا)) اللہ تعالیٰ رحم فرمائے عمرو پر۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول کون عمرو؟ آپ نے فرمایا: عمرو بن عاص، ہم نے کہا: ان کی کیا خصوصیت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( ذَکَرْتُہُ إِنِّيْ کُنْتُ إِذَا نَدَبْتُ النَّاسَ لِلصَّدَقَۃِ جَائَ مِنَ الصَّدَقِۃِ فَأَجْزَلَ، فَأَقُوْلُ:
Flag Counter