شام کی سرکردہ شخصیات میں سے اپنے مشیروں کو بلایا اور ان کے درمیان تقریر کرتے ہوئے کہا: علی ( رضی اللہ عنہ ) اہل عراق کو لے کر تمھارے خلاف جنگ کے لیے متحد ہوچکے ہیں… ذوالکلاع الحمیری رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: آپ ہمیں حکم دیں، ہم اسے انجام دیں گے۔[1] اہل شام معاویہ رضی اللہ عنہ پر اس بات پر بیعت کرچکے تھے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بہرحال مطالبہ جاری رکھا جائے اگرچہ خون ریزی ہی کیوں نہ ہو۔[2] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ لشکر کے انتظام وانصرام اور پرچموں کے باندھنے میں لگ گئے، پھر لشکر میں خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور انھیں خوب جوش دلایا۔ تقریر کرتے ہوئے کہا: اہل عراق نے اپنے اتحاد کو پارہ پارہ، اپنی قوت کو کمزور اور اپنی تلواروں کی دھاروں کو توڑ دیا ہے۔ اہل بصرہ بھی علی کے خلاف ہیں، کیونکہ انھوں نے ان کے اعزاء وغیرہ کو مار ڈالا ہے، جنگ جمل کے موقع پر دونوں یعنی اہل بصرہ اور اہل کوفہ کے صنادید ایک دوسرے کو فنا کے گھاٹ اتار چکے ہیں اور اب وہ علی نہایت تھوڑی سی جماعت لے کر لڑنے کے لیے چل نکلے ہیں۔ اس میں وہ لوگ بھی ہیں جنھوں نے تمھارے خلیفہ عثمان کو قتل کیا ہے۔ اے لوگو! اپنے حق کے مطالبہ میں اللہ سے ڈرو، کہیں اسے ضائع نہ کردو اور اپنے خون کے بارے میں خبردار رہو کہیں یہ بے کار رائیگاں نہ جائے۔[3] اس طرح معاویہ رضی اللہ عنہ ایک بھاری بھرکم فوج لے کر چل پڑے، فوج کی تعداد کے سلسلہ میں روایات مختلف ہیں اور ساری روایات سنداً منقطع ہیں۔ دراصل یہ وہی روایات ہیں جن میں علی رضی اللہ عنہ کی فوج کی تعداد کا اندازہ بتایا گیا ہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فوج کا بعض نے ایک لاکھ بیس ہزار،[4] اور بعض نے ستر ہزار اور بعض نے اس سے زیادہ کا اندازہ لگایا ہے۔[5] لیکن جو بات صحت سے قریب ترین ہے وہ یہ کہ ان فوجیوں کی تعداد ساٹھ ہزار تھی، یہ روایت بھی اگرچہ سنداً منقطع ہے لیکن اس کے راوی صفوان بن عمرو السکسی حمصی ہیں، وہ شام والوں میں سے ہیں، ’’ثقہ‘‘ اور ’’ثبت‘‘ ہیں۔ 72ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی، معرکۂ صفین میں شریک ہونے والے کئی لوگوں سے آپ کی ملاقات ثابت ہے، جیسا کہ ان کی سیرت کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔[6] اور ان تک اس روایت کی سند صحیح ہے۔[7] معاویہ رضی اللہ عنہ کے قائدین فوج کی ترتیب یہ تھی: اہل شام کے تمام شہ سوار فوج کے امیر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اور پیدل چلنے والوں پر ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہ تھے۔ ذوالکلاع الحمیری رضی اللہ عنہ میمنہ پر، حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ میسرہ پر اور ابوالاعور السلمی رضی اللہ عنہ مقدمہ پر مقرر تھے۔ یہ لوگ اس معرکہ کے اعلیٰ ترین قائدین میں سے تھے، ان میں ہر قائد کی ماتحتی میں دوسرے قائدین باعتبار قبائل مقرر تھے۔ صفین کی طرح کوچ کرتے وقت فوج کی یہی تنظیم تھی، لیکن وہاں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |