سے آپ کو بری ثابت کیا اور آپ کی براء ت و صفائی میں ایسی وحی نازل فرمائی جسے قیامت تک مسلمانوں کی نمازوں میں اور ان کے محراب و منبر پر پڑھی جاتی رہے گی، ان کے حق میں گواہی دی کہ آپ ’’طیبات‘‘ پاک عورتوں میں سے ہیں اور ان سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیا۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مطلع کیا کہ آپ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو کچھ بہتان تراشیاں کی گئیں ان کے حق میں بہتر ثابت ہوئیں، ان سے آپ کا دامن داغ دار نہیں ہوا، اور نہ ہی آپ کی شان کم ہوئی، بلکہ اس واقعہ کے سبب اللہ نے آپ کی عظمت کو چار چاند لگا دیے، اور آپ کے فضل و منقبت کو نکھار دیا، دونوں جہان والوں کے درمیان آپ کی شخصیت پاگیزگی کی یادگار بن گئی۔ اس عظیم ترین منقبت کی خوبیوں کا کیا کہنا۔ شرافت واکرام کے اس تمغۂ الٰہی پر ذرا غور تو کرو، جو آپ رضی اللہ عنہا کی شدت تواضع اور کسر نفسی کی وجہ سے آپ کو پہنایا گیا تھا، آپ فرماتی ہیں: مجھے اس کا کوئی وہم وگمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ سے قرآن مجید میں میرے معاملہ کی صفائی نازل کرے گا، کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کم تر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود میرے معاملہ میں کوئی کلام فرمائے، مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ میری براء ت کردے گا۔[1] یہ ہیں امت مسلمہ کی صدیقہ خاتون، تمام مومنوں کی ماں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب نظر، انھیں خوب معلوم تھا کہ میں مظلوم ہوں، اس گندی تہمت سے پاک ہوں، تہمت باز ظالم ہیں، افتراء پردازی کر رہے ہیں، انھوں نے اپنی گفتگو کے تیر و نشتر سے آپ رضی اللہ عنہا کے والدین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کیا تھا۔[2] علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب اہل افک نے جھوٹ اور بہتان سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاک دامن کو داغ دار کرنا چاہا تو اللہ کو غیرت آئی اور ان کی براء ت و صفائی میں قرآن کی دس آیات نازل کیں جو تاقیامت پڑھی جائیں گی …تمام علمائے امت اس بات سے متفق ہیں کہ اب اس براء ت کے بعد بھی جو شخص آپ پر تہمت لگاتا ہے وہ کافر ہے۔[3] وہ آیات جن میں آپ کے ذریعہ سے پوری امت کو فائدہ پہنچا، ان میں سب سے اہم آیت تیمم ہے۔ یہ آیت پوری امت کے لیے رحمت اور آسانی کا سبب بن گئی، چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اسمائ رضی اللہ عنہا سے ہار عاریت میں لیا، اتفاق کی بات کہ وہ گم ہوگیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تلاش میں اپنے چند صحابہ کو بھیجا، اسی دوران نماز کا وقت ہوگیا اور انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی، جب وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر آئے تو اس واقعہ کی آپ سے شکایت کی، تب آیت تیمم نازل ہوئی۔ اسید بن حضیر کہنے لگے: ((جَزَاکِ اللّٰہِ خَیْرًا۔))اللہ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! آپ کے ساتھ جو بھی ناپسندیدہ معاملہ پیش آیا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |