Maktaba Wahhabi

689 - 1201
کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہے اور اس مشفقانہ برتاؤ کا اہل بصرہ پر بہت اثر پڑا۔ وہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پر بیعت کے لیے تیار ہوگئے۔ معرکۂ جمل کی شام کو قیدیوں کوایک خاص جگہ میں رکھا گیاتھا، جب آپ دوسرے دن صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو موسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ کو بلایا، پھر احترام سے اپنے قریب بٹھایا، ان کی اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی خیریت معلوم کی پھر فرمایا: ہم نے تمھاری اس زمین پر قبضہ نہیں کیا ہے، صرف اسے اپنی تحویل میں لے لیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کہیں لوگ اسے لوٹ نہ لیں، پھر آپ نے انھیں غلہ جات واپس کردیے اور کہا: اے عزیز! جب تمھیں مزید کی ضرورت ہوگی تو میرے پاس آنا، اسی طرح آپ نے ان کے بھائی عمران بن طلحہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا۔ وہ دونوں اس احسان مندانہ سلوک سے بہت متاثر ہوئے اورآپ کہ ہاتھوں پر بیعت کرلی، قیدیوں نے یہ منظر دیکھا تو سب علی رضی اللہ عنہ کے پاس آپہنچے اور بیعت کرنے لگے، آپ نے ان سے بیعت لی، پھر یکے بعد دیگرے تمام قبائل نے بیعت کرلی۔[1] اسی طرح آپ نے مروان بن حکم کے بارے میں دریافت کیا اور کہا: ’’قریبی رشتہ داری کی وجہ سے مجھے اس پر رحم آرہا ہے، وہ نوجوانان قریش کا سردار ہے۔‘‘ مروان نے حسن، حسین اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کو بلایا اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ سے ان کے سلسلہ میں بات کریں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: انھیں امان ہے، جہاں چاہیں جاسکتے ہیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ کی اس شرافت اور عفو و درگزر کے باوجود مروان کو گوارا نہ ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان سے بیعت کرلیں۔[2]ہر چند کہ مروان رحمۃ اللہ علیہ بیعت کرنے سے علیحدہ رہے، لیکن امیر المومنین رضی اللہ عنہ کا برتاؤ دیکھ کر آپ کی تعریف کی،آپ کے صاحبزادے حسن سے کہا: آپ کے والد سے زیادہ کریم النفس انسان میں نے نہیں دیکھا، معرکۂ جمل میں جب ہم شکست کھا کربھاگ رہے تھے تو ان کا منادی اعلان کر رہا تھا: کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کرنا، کسی زخمی پر ہاتھ نہ اٹھانا۔[3] اسی طرح اہل بصرہ کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت مکمل ہوگئی، آپ نے اپنے عم زاد بھائی ابن عباس رضی اللہ عنہما کو وہاں گورنر اور زیاد بن ابیہ کو امیرخراج مقرر کیا، آپ کی خواہش تھی کہ لمبی مدت تک وہاں قیام کریں، لیکن مالک اشتر کی حرکتوں نے آپ کو جلد ہی وہاں سے روانہ ہونے پر مجبور کردیا، وہ اس لالچ میں تھا کہ علی رضی اللہ عنہ اسے بصرہ کا گورنر بنائیں گے، لیکن جب اسے پتا چلا کہ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بصرہ کا گورنر مقرر کردیا ہے تو وہ غصہ سے جل گیا اوراپنی قوم کا رخ کیا، علی رضی اللہ عنہ ڈرے کہ کہیں یہ وہاں پہنچ کر فتنہ و فساد نہ برپا کردے، اس لیے آپ نے اپنی باقی ماندہ فوج لے کر اس کا تعاقب کیا، اسے پالیا اور اس کے بھاگنے پر سرزنش کی اس پر اس نے کہا کہ میری کوئی بات نہیں سنی گئی۔[4]
Flag Counter