کرسکتاتھا او رنہ محاسبہ ۔[1] اس زہد و ورع اور دین پرستی کے باوجود آپ میں کبھی خشکی و ترش روئی، چہرہ اور پیشانی پر نفرت و بے زاری کے آثار نہیں دیکھے گئے، آپ ان میں سے بھی نہیں تھے جن کی صحبت سے لوگ ان کی خشکی اور خشک مزاجی کی وجہ سے دور رہتے ہیں اور پاس بیٹھنے سے گھبراتے ہیں، اس کے برخلاف آپ انتہائی خندہ جبیں، محبت اور شفقت سے پیش آنے والے تھے، چہرہ پر ہمیشہ شگفتگی کے آثار نظر آتے تھے، آپ کے ذاتی اوصاف بیان کرنے والوں نے لکھا ہے: آپ میں مردانہ حسن اور وجاہت تھی، متبسم رہتے تھے، چال میں میانہ روی تھی، زمین پر ہلکے قدم رکھتے تھے۔[2] ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ نے دنیا سے بے رغبت رہنے کا مفہوم اس طرح بیان کیا: اے لوگو! دنیا سے بے رغبتی کا مطلب یہ ہے کہ امیدوں کو طول نہ دینا، نعمتوں کے حصول پر اللہ کا شکر ادا کرنا، اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بچتے رہنا۔[3] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی یہ بات زہد کی حقیقت کو نمایاں کرتی ہے، بلاشبہ لمبی امیدیں لگانے سے انسان آحرت سے غافل ہوجاتا ہے، جب کہ انھیں طول نہ دینے سے وہ اپنے رب کی رضا چاہتے ہوئے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائیاں حاصل کرلیتا ہے۔ اس طرح نعمتوں کے حصول پر اللہ کی شکرگزاری ایک ربانی مسلمان کی صفت ہے کہ اسے ہمہ وقت اللہ کی مادی و معنوی اور ظاہری و باطنی نعمتوں کا احساس رہتا ہے، اور اسی کے نتیجہ میں وہ نعمتوں کے عطا کرنے والے پروردگار کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اسی طرح محرمات الٰہیہ سے دامن کشی کا معاملہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے اللہ کی رضا کے لیے انسان گناہوں کے قریب نہیں جاتا۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی زاہدانہ زندگی کا اپنے متعلقین اور گرد و پیش میں بیٹھنے والوں پر گہرا اثر تھا، اور امت مسلمہ کی تاریخ میں آپ کی شخصیت ایک تحریک تھی۔ مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی نے زہد اور اسلامی معاشرہ میں تجدید و اصلاح کے درمیان باہمی ربط اور عمیق تلازم کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ہم نے پوری اسلامی تاریخ میں زہد اور تجدید دین کو پہلو بہ پہلو چلتے دیکھا ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے جس کسی نے حالات کا دھارا بدلا اور تاریخ کا رخ موڑا اور اسلامی معاشرہ میں تجدید و اصلاح دین کی نئی روح پھونکی یا اسلامی تاریخ میں کسی نئے دور کا آغاز کیا اور دین، فکر اور علم کے میدان میں لازوال علمی وراثت چھوڑی اور صدیوں تک انسانوں کے افکار و آراء میں اس کا ایک مقام اور علم و ادب پر اس کا غلبہ رہا ہو۔ وہ زاہدانہ طبیعت کا مالک رہا ہے، شہوتوں کو کچلتا رہا ہے، دولت اور اہل دولت پر بھاری رہا ہے، اور شاید اس کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ زہد و ورع انسان کے اندر دفاعی قوت پیدا کرتا ہے، اس کی شخصیت اور عقیدہ کو کمال عطا کرتاہے، اس کی نگاہ میں مادی طاغوتوں شہوت پرستی کے متوالوں اور پیٹ کے پجاریوں کو حقیر و ذلیل بنا دیتا ہے۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |