یعنی آئیڈیل پیشوا بنا دوں گا جس کی لوگ اقتدا کریں گے اور فرمایا: وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ﴿٧٤﴾ (الفرقان:74)… ’’اور ہمیں پرہیز گاروں کا امام بنا۔‘‘ یعنی تاکہ لوگ دین کے بارے میں ہماری اقتدا کریں۔ اور فرمایا: يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ (الاسرائ:71) ’’جس دن ہم سب لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔‘‘ یعنی نبی یا دینی پیشوا کے ساتھ جس کی اس نے اقتدا ہوگی۔ایک مفہوم یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر جماعت اپنے اعمال نامہ کے ساتھ بلائی جائے گی۔[1] احادیث نبویہ میں بھی کئی مقامات پر انھیں معانی میں ’’امام‘‘ کا لفظ وارد ہوا ہے۔ مثلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ بَایَعَ اِمَامًا، فَاَعْطَاہُ صَفْقَۃَ یَدَیْہِ، وَ ثَمْرَۃَ قَلْبِہِ، فَلْیُطِعْہُ اِنِ اسْتَطَاعَ، فَإِنْ جَائَ آخَرُ یُنَازِعُہُ فَاضْرِبُوْا عُنْقَ الْآخرِ۔))[2] ’’جس شخص نے کسی امام (حاکم وقت) سے بیعت کی، اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا، اور اس سے عہد و اقرار کیا تو اسے چاہیے کہ جہاں تک ہوسکے وہ اس کی اطاعت کرے، اور اگر کوئی دوسرا اس امامت کو اس سے چھیننے آئے تو اس دوسرے کی گردن مار دو۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((تَلْزَمُ جَمَاعَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ وَ إِمَامَہُمْ۔))[3] ’’مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام (حاکم وقت) کے ساتھ رہو۔‘‘ اور فرمایا: ((سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمُّ اللّٰہُ فِيْ ظَلِّہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلَّہُ، إِمَامٌ عَادِلٌ۔))[4] ’’سات قسم کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنا سایہ اس دن دے گا کہ جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا: امام (حاکم) عادل…‘‘ یہاں پر ایک بات یہ قابل توجہ ہے کہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک لفظ ’’امامت‘‘ کا زیادہ تر استعمال اعتقادی اور فقہی مسائل میں ہوتا ہے اور لفظ ’’خلافت‘‘ کا زیادہ تر استعمال ان کی تاریخی کتب میں ہوتا ہے۔ غالباً اس تفریق کی وجہ یہ ہے کہ یہ مباحث خصوصاً جن کا تعلق عقیدہ سے ہے، امامت اور خلافت کے باب میں |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |