Maktaba Wahhabi

291 - 1201
کہنے لگا، مجھے تو اس کا علم ہی نہیں تھا، پھر اس نے اپنے عقیدہ سے توبہ کی، بہت سارا مال صدقہ کردیا، بہت سارے غلاموں کو آزاد کردیا، بہت سی ناانصافیوں کی تلافی کی اور اس قدر رویا کہ بے ہوش ہوگیا۔[1] اس لیے کہ اسے اپنے ماضی کی کارستانیوں اور جرائم کا احساس ہوگیا؟ جنھیں روافض کے دھوکا میں آکر ان برگزیدہ ہستیوں کے لیے جائز سمجھتا تھا۔[2] روافض شیعہ کے ممتاز علماء وبزرگان نے اس دلیل کو کنارے لگانے اور استدلال کو باطل ٹھہرانے کی پوری کوشش کی ہے اور اپنے ائمہ کے حوالے سے جھوٹی روایات وضع کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اس شرمگاہ کو ہم سے غصب کیا گیا تھا۔ [3] گویا کیچڑ کو دلدل بنا دیا اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو (نعوذباللہ) اس دیوث کی شکل میں پیش کیا جو کہ اپنی عزت کی طرف سے دفاع نہیں کرتا اور اپنے گھر میں زنا کاری کرواتا ہے، کیا اس طرح کی بات اسلام کے جرنیل سپوت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہم سوچ سکتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں، ایک عام عرب تو اپنی عزت کی حفاظت کی خاطر جان کو قربان کر ہی دیتا ہے، پھر بھلا بنو ہاشم جو کہ عرب کے سرداروں کے سردار تھے، نسب اور مردانگی و حمیت وغیرہ میں سب پر فائق تھے وہ اس ناپاک اور ذلت آمیز حرکت کو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی کے ساتھ کیسے برداشت کر سکتے تھے؟ اور مزید برآں علی رضی اللہ عنہ کب اسے برداشت کر سکتے تھے جب کہ وہ نامور بہادر، بنو غالب کے بے باک فرد اور مشرق و مغرب میں اللہ کے شیر تھے۔ [4] بعض رافضی مؤلفین کو دختر علی کے نکاح سے متعلق جب مذکورہ تاویل وتوجیہ پسند نہ آئی تو انھوں نے اس دلیل سے چھٹکارہ لینے کے لیے اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب دیومالائی منطق کا سہارا لیا اور کہا کہ وہ ام کلثوم علی رضی اللہ عنہ کی حقیقی بیٹی ہی نہ تھیں، بلکہ ان کی شکل و صورت میں ایک جننیہ جنات نژاد خاتون تھی۔[5] پس حیرت ہے کہ دلیل بھی دی ہو تو ایسی جس کا ہر عقل مند مذاق اڑائے، اس طرح تو ہر شخص جسے کسی سے نفرت ہو وہ اس کو جن یا جننیہ قرار دے سکتا ہے۔ لوگ اسی طرح سے خرافات میں زندگی گزارتے ہیں اور حقانق کو ضائع کرتے ہیں۔ خلفائے راشدین کے درمیان حقیقی محبت و اخوت کے قرائن میں سے یہ بات بھی ہے کہ ان میں قرابت داریوں کے تعلقات برابر قائم تھے اور ہر ایک نے باہمی محبت کا مظاہرہ کیا جیسا کہ ہم نے پچھلے صفحات میں دیکھ لیا ہے کہ خود علی، حسن، اور حسین رضی اللہ عنہم نے خلفائے راشدین سے فرط عقیدت ہی کی بنا پر اپنے بیٹوں کے نام ابو بکر وعمر رکھے تھے، کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسان اپنے سب سے بڑے کافر دشمن یا مبغوض ترین مدمقابل کے نام پراپنی اولاد کا نام رکھے؟ اور اپنے دشمنوں کے نام کو اپنے گھر کے کونے کونے سے سنے ؟ اور خود اپنے گھر و خاندان میں روزانہ کئی مرتبہ اپنے دشمن کا نام دہرائے؟ [6]
Flag Counter