Maktaba Wahhabi

1086 - 1201
منسوب ہے، بیان کرتے ہیں کہ اس نے اللہ کے فرمان: كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنسَانِ اكْفُرْ (الحشر:16) میں شیطان کی تفسیر عمر بن خطاب ( رضی اللہ عنہ ) سے کی ہے۔ (آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’شیطان کی طرح کہ جب اس نے انسان سے کہا کہ تو کفر کر۔‘‘) حرف بحرف بالکل یہی تاویل اثنا عشری شیعہ نے وراثت میں چھوڑی ہے اور اپنی مستند و معتبر ترین کتب مراجع و مصادر میں اسے لکھا ہے چنانچہ تفسیر عیاشی،[1] تفسیر الصافی،[2] تفسیر القمی،[3] تفسیر البرہان[4] اور بحار الانوار[5] میں اللہ کے فرمان وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ (ابراہیم:22) ’’اور شیطان کہے گا، جب سارے کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔‘‘کی تفسیر میں ابوجعفر کے حوالے سے منقول ہے کہ اس میں شیطان سے مراد وہی دوسرا (عمر) ہے اور قرآن میں جہاں بھی ’’وَ قَالَ الشَّیْطَانُ‘‘ وارد ہے وہی دوسرا (عمر) مراد ہے۔ اس طرح اثنا عشری شیعہ کی کتب کتاب اللہ سے متعلق انحراف پر مبنی یہ عام قاعدہ بنا کر مغیرہ کے غلو پر بھی سبقت لے گئیں۔[6] پس اس طرح کی تمام روایات جنھیں اثنا عشری شیعہ کی کتب ابوجعفر الباقر کی طرف منسوب کرتی ہیں یہ سب مغیرہ بن سعید اور اس جیسے دیگر غلوپرستوں کی کارستانیاں ہیں۔ چنانچہ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کثیر النواء سے روایت کیا ہے جو ایک شیعہ راوی ہے جس کے بارے میں مروی ہے کہ وہ آخرمیں تائب ہوگیا تھا کہ اس نے کہا کہ ابوجعفر نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مغیرہ بن سعید اور بیان بن سمعان کی کذب بیانیوں سے بری ہیں، ان دونوں نے ہم اہل بیت پر جھوٹ باندھا ہے۔[7] اور شیعہ مصنف کشی نے اپنی کتاب رجال الکشی میں ابوعبداللہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے مغیرہ بن سعید پر وہ ہم پر جھوٹ باندھتا تھا۔ کشی نے اس باب میں متعدد روایات نقل کی ہیں۔[8] یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ اشعری، بغدادی، ابن حزم اور نشوان الحمیری یہ سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ جابر جعفی جس نے اس باطنی نہج پر سب سے پہلے شیعی تفسیر مرتب کی، وہ اسی مغیرہ بن سعید کا نائب تھا،[9] جس نے قرآن میں ہر جگہ لفظ شیطان سے امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ کو مراد لیا ہے۔اس طرح گویا یہ خطرناک عناصر ایک دوسرے کے ہم مشرب ہو کر دامن تشیع کو داغ دار اور چاک چاک کرتے رہے۔[10] اپنے وقت کے سب سے بڑے شیعہ عالم، ابن المطہر الحلی کہ جب علامہ بولا جائے تو شیعہ قوم کے نزدیک یہی مراد ہوتے ہیں، یہ صاحب علی رضی اللہ عنہ کے لیے استحاق امامت کو ثابت کرتے ہوئے دلیل میں لکھتے ہیں کہ تیسویں دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ ﴿١٩﴾ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيَانِ ﴿٢٠﴾ (الرحمن:19، 20) ’’اس نے دو سمندروں کو ملادیا ، جو اس حال میں مل رہے ہیں کہ۔ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے( جس
Flag Counter