Maktaba Wahhabi

108 - 1201
گا۔اس کے ساتھ پگھلا دیا جائے گا جو کچھ ان کے پیٹوں میں ہے اور چمڑے بھی۔ اور انھی کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہیں۔جب کبھی ارادہ کریں گے کہ سخت گھٹن کی وجہ سے اس سے نکلیں، اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور چکھو جلنے کا عذاب۔بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، انھیں اس میں کچھ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور موتی بھی اور ان کا لباس اس میں ریشم ہوگا۔‘‘ اس آیت کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن میں سب سے پہلے (یعنی مجاہدین میں سے) اپنے رب کے سامنے دوزانوں فیصلہ کے لیے بیٹھوں گا۔ قیس بن عبادہ نے بیان کیا کہ هَـٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ انھیں حضرات حمزہ، علی، عبیدہ، یا ابوعبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی؟ بیان کیا کہ یہ وہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں مبارزت کے لیے تنہا تنہا نکلے تھے۔ حمزہ، علی، عبیدہ یا ابوعبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہم (مسلمانوں کی طرف سے) اور شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ اور ولید بن عتبہ (کفار قریش کی طرف سے)۔[1] منجملہ دیگر لوگو ں کے آپ کے بارے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (آل عمران:61) ’’پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آ چکا تو کہہ دے آؤ! ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمھیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔‘‘ یہ اس وقت کا واقعہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ نجران کے وفد سے عیسیٰ بن مریم کے بارے میں مناظرہ کرتے ہوئے انھیں چیلنج کیا تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اس کے رسول اور اس کے کلمہ ’’کُنْ‘‘ کی پیدوار ہیں، جسے اللہ نے ان کی پاک دامن ماں کے رحم میں ڈالا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کے اس عقیدہ کی تکذیب و تردید کی کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ ہیں، یا اللہ کے بیٹے ہیں، یا تیسرے معبود ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اسلام کی دعوت دی، لیکن انھوں نے ماننے سے انکار کردیا، پھر آپ نے انھیں مناظرہ کے لیے چیلنج کیا۔ عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت کریم فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور کہا: ((اَللّٰہُمَّ ہٰؤُلَائِ أَہْلِیْ۔))[2] ’’اے اللہ یہ سب میرے اہل ہیں۔‘‘
Flag Counter