Maktaba Wahhabi

1029 - 1201
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ ﴿٦٤﴾ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿٦٥﴾ بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ ﴿٦٦﴾ (الزمر:64،66) ’’کہہ دے پھر کیا تم مجھے غیراللہ کے بارے میں حکم دیتے ہو کہ میں (ان کی) عبادت کروں اے جاہلو!اور بلا شبہ یقینا آپ کی طرف وحی کی گئی اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے کہ بلاشبہ اگر آپ نے شریک ٹھہرایا تو یقینا آپ کا عمل ضرور ضائع ہو جائے گا اور آپ ضرور بالضرور خسارہ اٹھانے والوں سے ہو جائیں گے۔بلکہ اللہ ہی کی پھر عبادت کریں اور شکر کرنے والوں سے ہو جائیے۔‘‘ پس آیت کریمہ کے سیاق و سباق سے یہ واضح ہے کہ اس کا تعلق اللہ کی عبادت میں وحدانیت کے اقرار و عمل سے ہے، لیکن انھوں نے معاملہ کو بالکل الٹ دیا اور آیت کریمہ کو علی رضی اللہ عنہ سے جوڑ دیا حالانکہ اس میں آپ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے، بالفاظ دیگر انھوں نے علی کو اللہ کے اور ولایت و امامت کو عبادت کے قائم مقام ٹھہرایا ہے، جب کہ آیت کریمہ کا معنی و مدلول بالکل واضح ہے اور ان لوگوں کی بے بنیاد تاویلات اور حقیقی معنی کے درمیان کوئی ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔[1] آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین سے ان الفاظ میں خطاب کرنے کا حکم اس وقت دیا جب انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دلیل دے کر بتوں کی پرستش کی طرف بلایا کہ یہی تمھارے آباء و اجداد کا بھی دین رہا ہے۔[2] چنانچہ آیت کریمہ کا معنی یہ ہے کہ اے نبی! آپ اپنی قوم کے مشرکوں سے کہہ دیجیے کہ اے اللہ سے ناواقف لوگو! تم لوگ مجھے غیر اللہ کی عبادت کا حکم دیتے ہو ، جب کہ اس ذات واحد کے علاوہ کسی کی عبادت جائز نہیں اور چونکہ غیر اللہ کی عبادت کا حکم جاہلوں اور بے وقوفوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں دے سکتا، اس لیے انھیں اسی وصف کے ساتھ مخاطب کرتے ہوئے أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ (الزمر:64) کہا ، پھر اس کے بعد فرمایا کہ اس نے اپنے اس نبی اور جو اس سے پہلے انبیاء آئے سب کے پاس یہ وحی نازل فرمائی کہ اگر آپ نے اللہ کے ساتھ شرک کیا تو بلاشبہ آپ کا عمل ضائع ہوجائے گا۔ یہاں شرک کی ہلاکت خیزی اور اس کی مذمت کا ایک اچھوتا انداز بیان ہے، بایں طور کہ جس شخص کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ شرک کے قریب پھٹکے گااسے شرک سے روکا جارہا ہے۔ پھر بھلا جسے اس میں واقع ہوجانے کا پورا اندیشہ ہو اس کے بارے میں اس شرک کے تئیں کیا حکم ہوگا، آگے اللہ نے فرمایا: بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ ’’اللہ کی عبادت کر‘‘ یعنی مشرکین جس کی عبادت کی طر ف بلا رہے ہیں ان کی عبادت نہ کرکے اللہ واحد کی عبادت کر۔[3]
Flag Counter