کہا: اے اللہ کے رسول! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، آپ کے تو اگلے اور پچھلے سب گناہ اللہ نے معاف کر دیے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں نہ چاہوں کہ اللہ کا شکر گزار بندہ بنوں۔ [1]
14: اسی نبوی تربیت اور امہات المؤمنین کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور محبت وشفقت کا اَثر تھا کہ سب نے بغیر کسی ادنیٰ تردّد وتاخیر کے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا جب اللہ نے انہیں اختیار دیا کہ وہ دنیا اور اس کی خوش رنگیوں اور اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کی خوشیوں میں سے کسی ایک کو اختیار کریں۔
چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے سامنے سورہ احزاب کی اس سلسلہ کی دونوں مندرجہ ذیل آیتیں پڑھیں:
((يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ﴿28﴾ وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا)) [الأحزاب: 28-29]
’’ اے میرے نبی! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تمہیں دنیا کی زندگی اور اس کی خوش رنگیاں چاہیے، تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دوں اور خوش اسلوبی کے ساتھ تمہیں رخصت کر دوں۔ اور اگر تمہیں اللہ اور اس کا رسول چاہیے، اور آخرت کی بھلائی چاہیے، تو بے شک اللہ نے تم میں سے نیک عمل کرنے والیوں کے لیے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔ ‘‘
اور کہا: جلدی نہ کرو، اور اپنے باپ ماں سے مشورہ کر لو، تو سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا: کیا میں اس بارے میں اپنے باپ ماں سے مشورہ کروں؟ میں اللہ اور اس کے رسول اور دا رِآخرت کو اختیار کرتی ہوں۔ اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے بعد دیگر تمام بیویوں نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ رضی اللہ عنہن جمیعاً۔ [2]
اہلِ مغرب کا بیمار فکر اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
تعدّدِ اَزواجِ نبوی کے جو معقول اسباب اور اونچے اغراض ومقاصد اب تک بیان کیے گئے اِن سب کا ادراکِ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کیا اور پورے طور پر مطمئن ہوئے۔ اُمہات المؤمنین بھی اِن اسباب اور حکمتوں کی قائل ہوئیں جبھی تو اُن میں سے کئی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلے سے متعدد بیویاں ہونے کے باوجود اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہبہ کر دیا، اور شدید تنگیٔ رزق اور ہزار دنیاوی پریشانیوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایۂ عاطفت میں خوشی اور رضامندی کے ساتھ زندگی گزارتی رہیں۔ اور کبھی اُن میں سے کسی کے لب پر حرفِ شکایت نہیں آیا۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی نرم روٹی کھائی یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے، اور نہ پوری بُھنی ہوئی بکری کبھی دیکھی، اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں: ہم تین چاند دیکھ لیتے تھے اور دو ماہ گزر جاتے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں چولہا نہیں جلایا جاتا تھا۔ عُروہ نے پوچھا: کون سی چیز آپ لوگوں کو زندہ رکھتی تھی؟ انہوں نے کہا: کھجور اور پانی۔ [3]
|