Maktaba Wahhabi

646 - 704
امام بخاری اور مسلم رحمهم الله نے بنو تمیم کی فضیلت میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے بنو تمیم کے بارے میں تین باتیں سنی ہیں، اُن سے محبت کرنے لگا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے بارے میں فرمایا: یہ لوگ دَجّال سے مزاحمت میں شدید ہوں گے۔ اور ام المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے پاس اُن میں سے ایک لونڈی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اسے آزاد کر دو، یہ اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے، اور جب اُن کے صدقات آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے فرمایا: یہ میری قوم کے صدقات ہیں۔ [1] 2۔ وفد ِبنی عامر: اُنہی دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بنو عامر کا وفد آیا، اُن میں عامر بن طفیل، اَربد بن قیس اورجُبار بن سلمی بھی تھے، یہ تینوں اپنی قوم کے سردار ان اور اُن کے شیاطین تھے۔ اللہ کے دشمن عامر بن طفیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ سے قتل کرنا چاہا، حالانکہ اس کی قوم نے اسے منع کیا تھا، اس لیے کہ وہ سب مسلمان ہوگئے تھے۔ لیکن اس مردود نے اصرار کیا اور اَربد بن قیس کے ساتھ مل کر سازش کی، لیکن اللہ دونوں کے لیے کافی ہوا، اللہ تعالیٰ نے عامر کو گردن کے طاعون میں مبتلا کر دیا، اور بالآخر بنی سلول کی ایک عورت کے گھر میں اللہ تعالیٰ نے اُسے ہلاک کر دیا، اور اَربد پر اللہ تعالیٰ نے صاعقہ (آسمانی بجلی) گِرا دی جس نے اسے جلا کر خاکستر کر دیا۔ اسی عامر بن طفیل نے ستر (70) قُرّاء کو دھوکہ دے کر قتل کردیا تھا، اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ بنو عامر کے ساتھ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھمکی دی اور کہا کہ میں تمہیں تین باتوں کے درمیان اختیار دیتا ہوں: تم شہر والوں کے حاکم ہوگے، اور میں بادیہ نشینوں کا، یا یہ کہ تمہارے بعد تمہارا خلیفہ میں بنوں گا، یا میں قبیلۂ غطفان اور اُن کے ہزار چتلے اونٹوں اور ہزار چتلی اونٹنیوں کے ساتھ تم سے جنگ کروں گا۔ بالآخر اس کا انجام یہ ہوا کہ ایک عورت کے گھر میں اسے نیزہ مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ [2] مختصر یہ کہ بنو عامر کے بہت سے لوگ اسلام لے آئے، مطرّف بن عبداللہ بن شِخّیر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بنو عامر کے وفد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور کہا: آپ ہمارے آقا ہیں، آپ ہمارے سردار ہیں، اور آپ ہم سے کہیں زیادہ اَرفع واَعلیٰ ہیں، آپ ہم سے کہیں زیادہ افضل ہیں، اور آپ ہی کریم الخصال ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنی بات کہو، لیکن دیکھو، کہیں شیطان تمہیں اپنا آلۂ کار نہ بنالے۔ آقا اور سید تو صرف اللہ ہے۔ [3] 3۔ وفدِ عبد القیس: دلائل النبوۃ البیہقی میں مزیدہ العصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے دورانِ گفتگو فرمایا کہ عنقریب اِدھر سے سواروں کی ایک جماعت آئے گی جو اہلِ مشرق کے بہترین لوگ ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اُس
Flag Counter