عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا وَمَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَزِيزًا حَكِيمًا)) [الفتح:18-19]
’’ یقینا اللہ مومنوں سے راضی ہوگیا، جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے، پس وہ جان گیا اس اخلاص کو جو اُن کے دلوں میں تھا، اس لیے اُن پر سکون واطمینان نازل کیا، اور بطور جزا ایک قریبی فتح سے نوازا،اور بہت سے اموالِ غنیمت جنہیں وہ حاصل کریں گے، اور اللہ زبردست، بڑی حکمتوں والا ہے۔ ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے اس تاریخی موقف وکردار اور بیعت کرنے میں تیزی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: تم لوگ اہلِ زمین میں سب سے اچھے ہو۔ [1] اور فرمایا: جن لوگوں نے درخت کے نیچے میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے، ان شاء اللہ اُن میں سے کوئی آگ میں داخل نہیں ہوگا۔ [2]
قریش کا نمائندہ سہیل بن عمرو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس:
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیعت مکمل ہونے کے بعد واپس آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ قریش کے دل میں اب کوئی شک و شبہ نہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوراُن کے صحابہ کرام مکہ مکرمہ صرف بیت اللہ کی تعظیم کے لیے آئے ہیں، لیکن اِس سال وہ انہیں مکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ عرب کے لوگ یہ نہ کہیں کہ قریش مسلمانوں کی دھمکی سے شکست کھاگئے ہیں، لیکن انہوں نے اس پر بھی خوب غور کرلیا ہے کہ انہیں اپنے کبر وغرور پر اصرار نہیں کرنا چاہیے، اور اپنی بعض اُن شروط سے تنازل اختیار کرلینا چاہیے جو جنگ کا باعث بن سکتی ہیں، جس کی اب فی الواقع اہلِ مکہ میں طاقت نہیں ہے۔ اور خاص طور پر اس خبر کے پھیل جانے کے بعد کہ صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر موت یا شہادت کی بیعت کرلی ہے، ان کے اندر رعب داخل ہوگیا ہے اور ڈر گئے ہیں۔ اسی لیے قریش نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بنی عامر بن لؤی کے سہیل بن عمرو کو اپنا قاصدبناکر بھیجیں۔ قریشیوں نے اس سے کہا کہ تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ، اور اس سے صلح کی بات کرو، اور اس میں یہ شرط رکھو کہ وہ اس سال واپس چلا جائے، ورنہ اللہ کی قسم! عرب کے لوگ ہمیشہ یہ کہیں گے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )مکہ میں طاقت کے بل پر داخل ہوگیا تھا۔ سہیل کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے قریش کے نمائندہ کی حیثیت سے مکرز بن حفص آیا تھا جو ابھی بات کرہی رہا تھا کہ سہیل پہنچ گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھتے ہی صحابہ کرام سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارا معاملہ آسان کردیا، سہیل نے کہا: تم اپنے اور ہمارے درمیان ایک معاہدہ نامہ لکھ دو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتب کو بلایا۔ [3]
مشرکین کا مسلمانوں پر اچانک حملہ کا ارادہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سہیل بن عمرو کے ساتھ صلح کی بات مکمل کررہے تھے، تومشرک جوانوں کے ایک گروپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی مشغولیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں پر اچانک حملہ کرنا چاہا، انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت
|