کعب نے کہا: اللہ کی قسم! تم زمانے بھر کی ذلت اور ایک ایسا دکھاوے کا بادل لے کر آئے ہو جس میں پانی کی ایک بوند بھی نہیں ہے، میں نے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے وفاداری اور صداقت کے سوا کوئی دوسری بات نہیں دیکھی ہے، لیکن آخر کار حُیَيْ کعب کو یہ کہہ کر قائل کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ اس وقت عربوں کی طاقت قریش کے ساتھ ہے، اور بنو قریظہ کے مستقبل کے بارے میں اطمینان دلایا اور عہد وپیمان کیا کہ اگر قریش اور غطفان کے لوگ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خاتمہ کیے بغیر واپس چلے گئے تو میں تمہارے ساتھ تمہارے قلعہ میں داخل ہوجاؤں گا تاکہ جو تمہارا انجام ہو وہی میرا بھی انجام ہو، اور اس طرح یہودِ بنی قریظہ ان کافروں کے ساتھ مل گئے جو مدینہ پر چڑھ آئے تھے۔
چار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مُخبری:
بنو قریظہ کے غدر وخیانت کی خبر ہوتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس خبر کی تصدیق کرنی چاہی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ، سعد بن عبادہ، عبداللہ بن رواحہ، اور خوات بن جبیر رضی اللہ عنھم کو بلایا، اور ان سے کہا: تم لوگ بنوقریظہ کے پاس جاؤ اور معلوم کرو، اگر اُن کی خیانت وبدعہدی کی بات صحیح ہے تو واپس آکر مجھے اشارہ میں بتا دو، اور لوگوں کی ہمت کو پست نہ کرو، اور اگر خبر جھوٹی ہے تو لوگوں میں اس کا اعلان کر دو۔ وہ چاروں بنو قریظہ کے پاس گئے اور انہیں اس سے زیادہ خباثت اور شرانگیزی پر آمادہ پایا جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تھی، بنو قریظہ نے کہا: اب کیا رہ گیا جبکہ ہمارے پَر توڑ دے گئے، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بنو نضیر کو یہاں سے نکال دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا کہنے لگے، اور کہا: جاؤ، ہمارے اور اس کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ان سے وفاداری کی التجا کرنے لگے، اور انہیں غداری اور خیانت کے بُرے انجام سے ڈرانے لگے، اور ان سے کہنے لگے، اے بنی قریظہ کے لوگو! ہماے اور تمہارے درمیان جو حلْف اور معاہدہ ہے، اسے تم خوب جانتے ہو، اس لیے مجھے کہنے دو کہ میں تمہارے بارے میں بنو نضیر جیسے یا اس سے بدتر انجام سے ڈرتا ہوں۔
بنی قریظہ سخت کلامی پر اُتر آئے، اور انہیں گالیاں دینے لگے، اور وہ بھی ان کوبُرا کہنے لگے، تب سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا: ان کے ساتھ منہ نہ لگاؤ، ہمارے اور ان کے درمیان اس سے بڑی بات کا معاہدہ ہے۔
سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ تھے، اور کہا: عضل اور قارہ۔ ان دونوں قبیلوں کی اصحاب رجیع کے ساتھ غداری اور خیانت کی طرف اشارہ کرکے یہ بتانا مقصود تھا کہ بنی قریظہ بھی انہی کی طرح غداری اور خیانت پر آمادہ ہوچکے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے مسلمانو! خوش ہوجاؤ، پھر آپؐ نے اپنے کپڑے سے اپنا منہ ڈھانک لیا اور دیر تک لیٹے رہے، اور صحابہ کرام نے جب آپؐ کی یہ کیفیت دیکھی تو ان کی حالت دگر گوں ہونے لگی، اور سمجھ گئے کہ بنو قریظہ کے بارے میں آپ کو کوئی اچھی خبر نہیں ملی ہے، پھر آپؐ نے سر اُٹھایا، اور فرمایا:میں تمہیں اللہ کی طرف سے فتح ونصرت کی خوشخبری دیتا ہوں۔[1]
دشمنانِ اسلام کی ہر چہار طرف سے یلغار:
اس طرح مشرکینِ مکہ و حجاز مدینہ کے بالائی علاقے کی طرف سے چڑھ آئے اور اہلِ نجد نچلے علاقے کی طرف سے، اور
|