معرکۂ بدر میں شریک ہوئے، جب دونوں فوجیں ٹکرائیں تو اللہ تعالیٰ نے دشمن کو شکست دی، اور مسلمانوں کی ایک جماعت نے ان کا پیچھا کیا اور ان میں سے کئی کو قتل کیا، اور ایک جماعت کافر فوج کا مال ومتاع جمع کرنے لگی، اور ایک جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈالے رکھا، تاکہ کوئی دشمن اچانک آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان نہ پہنچادے، جب رات ہوئی اور لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرنے لگے تو جن لوگوں نے مال غنیمت جمع کیا تھاوہ کہنے لگے کہ ہم نے اسے جمع کیااور اس میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے، اور جن لوگوں نے دشمن کا پیچھا کیا تھا، انہوں نے کہاکہ تم لوگ ہم سے زیادہ مالِ غنیمت کے حقدار نہیں ہو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے رہے، اس ڈر سے کہ کہیں دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک نقصان نہ پہنچادے اور ہم اسی کام میں مشغول رہے، تو آیتِ کریمہ نازل ہوئی:
((يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنفَالِ ۖ قُلِ الْأَنفَالُ لِلَّـهِ وَالرَّسُولِ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ ۖ)) [الأنفال: 1]
’’ لوگ آپ سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہیے کہ اموالِ غنیمت اللہ اور رسول کے لیے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو، اور اپنے آپس کے تعلقات کو ٹھیک رکھو۔ ‘‘ [1]
آثارِ صحیحہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ نکال لینے کے بعد باقی کو مسلمان مجاہدین کے درمیان برابر تقسیم کردیا، اور پانچویں حصہ سے متعلق آیتِ کریمہ غزوہ بدر کے بارے میں نازل شدہ آیات کے سیاق میں نازل ہوچکی تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ)) [الأنفال: 41]
’’ اور جان لو کہ تمہیں جو کچھ بھی مالِ غنیمت ہاتھ آئے گا، اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے، اور (رسول اللہ کے) رشتہ داروں، اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہوگا۔ ‘‘[2]
سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے مالِ غنیمت میں حصہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نو صحابہ کرام کومالِ غنیمت میں سے حصہ دیاجو کسی عذر شرعی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں مدینہ میں کسی کام کے لیے مکلف کیے جانے کے سبب غزوہ میں شریک نہیں ہوئے، انہی میں سے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مریض بیوی رقیہ بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھ بھال کے لیے مدینہ میں رہنے کا حکم دیا تھا، اور اسی مرض میں سیّدہ رقیہ رضی اللہ عنہما کی وفات بھی ہوگئی۔ [3]
شکستِ کفار کی خبریں مکہ میں:
مکہ میں موجودقریشیوں نے اپنے بھاگنے والے فوجیوں کے ساتھ بہت ہی بُر ا برتاؤ کیا، پہلے تو یہ سمجھا کہ وہ فوج کے
|