Maktaba Wahhabi

475 - 704
ثمامہ بن اُثال کی گرفتاری اور رہائی: مذکوربالا مجاہدین نے مدینہ واپس آتے ہوئے بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اُثال کو قید کرلیا، جو مسیلمہ کذاب کے حکم سے بھیس بدل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے نکلاتھا، مجاہدین اسے نہیں پہچانتے تھے، جب اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہچان لیا، اور صحابہ رضی اللہ عنھم نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا: اے ثمامہ، تمہارا کیا ماجرا ہے، اس نے کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! میرے پاس بھلائی ہے، اگر تم مجھے قتل کردوگے تو تم سے میرے خون کا انتقام لیا جائے گا، اور اگر مجھ پر احسان کرکے چھوڑ دوگے تو ایک شکر گزار انسان پر احسان کروگے، اور اگر تمہیں مال چاہیے تو مانگو، جو مانگوگے تمہیں دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا، دوسرے دن آپؐ نے پھر اس سے پوچھا: اے ثمامہ! تمہارا کیا ماجرا ہے؟ اس نے پہلے جیسا جواب دیا، آپؐ تیسری بار اس کے پاس سے گزرے اور ثمامہ نے اپنی پہلی بات دہرائی، تو آپؐ نے صحابہ کرام سے کہا: ثمامہ کو چھوڑ دو، صحابہ نے اسے آزاد کردیا۔ وہ مسجد نبوی کے قریب ایک نخلستان میں گیا، وہاں نہایا اور مسجد میں واپس آگیا، اور کہا: (( أَشْہَدُ أَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔) ) نیز کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ کی قسم، سرزمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ میرے نزدیک مبغوض نہیں تھا، اب آپ کا چہرہ دنیا کے سارے چہروں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہوگیاہے۔اللہ کی قسم! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ میرے نزدیک مبغوض نہیں تھا، اب آپ کا شہر دنیا کے سارے شہروں سے زیادہ میرے نزدیک محبوب ہوگیا ہے۔ اور آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے اس وقت گرفتار کرلیا جب میں عمرہ کے لیے جارہا تھا، اب آپ کا کیا خیال ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خوشخبری دی، اور اسے عمرہ کرنے کی اجازت دے دی، جب ثمامہ رضی اللہ عنہ مکہ پہنچے تو کسی نے ان سے پوچھا: کیا تم بے دین ہوگئے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ہوں، اللہ کی قسم! اب تمہارے پاس یمامہ سے گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچے گا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ہمیں اجازت دے دیں۔ [1] غزوۂ بنی لحیان: ماہ ربیع الأول یا جمادی الأولیٰ سن 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی لحیان کی سر کوبی کے لیے نکلے، جنہوں نے مقامِ رجیع پر چھ اصحابِ رسول کے ساتھ غداری وخیانت کی تھی، ان میں سے چار کو قتل کردیا تھا، اور دو کو قید کردیا تھا، یہ دونوں خبیب بن عدی اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنھما تھے، دشمنوں نے ان دونوں کو قریش کے ہاتھوں بیچ دیا، اور انہیں پھانسی دے دی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان صحابہ کرام کے قتل کی خبر سے بہت زیادہ تکلیف ہوئی تھی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دو سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی سرکوبی کے لیے نکل پڑے، اورمدینہ میں ابن امّ مکتوم کو اپنا نائب بنادیا۔ ان مجاہدین کے پاس بیس گھوڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ظاہر کیا کہ آپ شام کی طرف جارہے ہیں، پھر تیز چل کر بطن غُران تک پہنچ گئے جو عقبہ اور عسفان کے درمیان دشمنوں کی وادیوں میں سے وہ وادی تھی جہاں مذکورہ بالا صحابہ کرام قتل کیے گئے تھے، آپؐ نے وہاں ان کے لیے دعا کی۔
Flag Counter